کانگریس طاقتور متبادل نہیں ؟

   

Ferty9 Clinic

آکر شبِ فراق نے ہم کو سُلا دیا
اب دیکھنا یہی ہے بلا کس کے سر گئی
کانگریس طاقتور متبادل نہیں ؟
ہندوستان کی قدیم پارٹی کانگریس پر اب عوام کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے ۔ گذشتہ دو لوک سبھا انتخابات اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں پارٹی کے کمزور مظاہرہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کانگریس نے عوام کا اعتماد مضبوط بنانے کے لیے خاص کوشش نہیں کی۔ پارٹی ہائی کمان کا جو رتبہ ، درجہ ، قدر اور دبدبہ تھا ۔ اب یہ اپنی اہمیت کھو رہا ہے ۔ کسی بھی پارٹی کا دم خم اس کی قیادت سے ہوتا ہے ۔ کانگریس نے حالیہ برسوں میں قیادت کے مسئلہ پر سنجیدگی سے کام نہیں لیا ۔ نتیجہ میں اس کو ہر انتخاب میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ حالیہ بہار اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو پہلے سے بھی کم نشستیں ملی ہیں ۔ اس کے مہاگٹھ بندھن کی حلیف پارٹی آر جے ڈی نے دو قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے ثابت کردیا کہ قیادت میں دم خم ہونا چاہئے۔ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کو سیاسی تجربہ ورثہ میں ملا ۔ اس طرح راہول گاندھی کو بھی سیاست میراث میں ملی ہے لیکن عوام کے حق میں کانگریس کے معاملے بہت زیادہ لاپرواہی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ اس لیے پارٹی کے کئی سینئیر قائدین کو اپنی ہی قیادت سے شکایت ہونے لگی ہے ۔ سینئیر لیڈر کپل سبل نے کہا کہ کانگریس کی قیادت اب مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہی ہے ۔ پارٹی کی تنظیم نو سے لے کر پارٹی کے عام ورکرس سے لے کر پارٹی کے سرگرم سینئیر قائدین کو اس اعتماد میں لینے سے گریز کیا جارہا ہے ۔ کپل سبل نے بہار میں کانگریس کے کمزور مظاہرہ کے لیے بھی پارٹی کی کمزور قیادت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ عوام بھی کانگریس کو موثر متبادل کے طور پر نہیں دیکھ رہی ہیں ۔ اور نہ ہی پارٹی قیادت درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ کانگریس کے 23 سینئیر کانگریس قائدین میں سے ایک نے سونیا گاندھی کو مکتوب لکھ کر غیر معمولی طور پر یہ بات واضح کی ہے کہ جب تک کانگریس کی تنظیم نو نہیں کی جائے گی پارٹی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ٹھوس منصوبے اور مستقبل کے لائحہ عمل کو قطعیت نہیں دیا جائے گی، کانگریس کا احیا مشکل ہے ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کانگریس کو اپنی ناکامیوں کی وجوہات کا علم نہیں ہے ۔ پارٹی قیادت مسائل سے واقف بھی ہے اور اس کا حل بھی جانتی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ پارٹی کو اس قدر کمزور بنایا جارہا ہے ۔ پارٹی قیادت ان تمام حقائق اور خرابیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور جانتے سمجھتے ہوئے بھی خرابیوں کوتاہیوں کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر عوام بھی اس طرح پارٹی کو نظر انداز کردیں گے ۔ پارٹی کے سینئیر قائدین کی شکایت یہ ہے کہ پارٹی قیادت اب ان کی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ کانگریس کو خود احتسابی کی ضرورت ہے ۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے کئی ارکان بھی پارٹی کی موجودہ حالت پر فکر مند ہیں ۔ قومی پارٹی کی حیثیت سے کانگریس کے پاس کئی سنہرے واقعات ہیں اور اس کی قدیم میراث ہی اسے عوام کا اعتماد بحال کرنے میں معاون ہوگا ۔ مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت کو مضبوط بنانے میں کانگریس کی مجہول پالیسیاں اور زمانہ کے مطابق کام نہ کرنے کی روایتی عادت کا اہم رول رہا ہے۔ سیکولر نظریہ کی حامل کانگریس نے جب نقلی ہندوتوا یا نقلی سیکولرازم کا ڈرامہ شروع کیا تو اسے ہر دو مکتب فکر کے رائے دہندوں سے دور ہونا پڑا ۔ مسلمانوں سے دوری کی وجوہات سے پارٹی اچھی طرح واقف ہے ۔ کانگریس کے سینئیر قائدین کو اس بات کا اندازہ ہے کہ پارٹی کے ساتھ کیا غلط ہورہا ہے لیکن وہ بھی اس ’ غلط ‘ کو دور کرنے میں اپنی اجتماعی ذمہ داری کو پورا کرنے سے قاصر ہیں ۔ تنظیمی طور پر کانگریس کمزور ہوچکی ہے ۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی ایک اعلیٰ اور طاقتور پالیسی ساز ادارہ ہے ۔ اس کے ارکان نہایت تجربہ کار اور سیاسی طور پر کہنہ مشق ہونے کے باوجود پارٹی کی بعض دانستہ یا غیر دانستہ غلطیوں نے انہیں کمزور کردیا ہے ۔ منہ میں زبان رکھتے ہوئے بھی کچھ نہ کیا جائے تو یہ بھی ایک سانحہ اور پارٹی کا المیہ ہے ۔ کانگریس کو ترقی دینے کے لیے مشورے دینے کے لیے تو بہت لوگ ہیں لیکن اصل پارٹی کی قیادت کو ہی اپنے اندر سوچ اور فکر کی تبدیلی کو یقینی بنانا ہے ۔ جن قائدین کو پارٹی قیادت کے بارے میں فکر ہے انہیں ہی ٹھوس قدم اٹھا کر پارٹی کے لیے موثر منصوبے اور تجاویز پیش کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہر سینئیر اور جونیر لیڈر نے اپنی سمت ایک دوسرے کے برعکس کرلی ہے تو پھر پارٹی کا معیار اور مقام جھکولے کھاتے رہے گا ۔۔