کانگریس قائدین کی مایوسی

   

تلنگانہ میں جہاں سیاسی ماحول گرم ہوتا جا رہا ہے اور ہر جماعت اپنے اپنے طور پر عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہیں ایسا لگتا ہے کہ کانگریس قائدین میں پارٹی کے تعلق سے مایوسیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے کچھ قائدین پارٹی کو چھوڑنے میں ہی بہتری محسوس کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ کانگریس میں دوسری جماعتوں کے قائدین بھی شامل ہو رہے ہیں لیکن جو قائدین پارٹی کو چھوڑ رہے ہیں ان کے پاس اس کا کوئی مستحکم جواز نظر نہیں آتا ۔ ریاست میںٹی آر ایس اپنے اقتدار کو بچانے اور حکومت کی ہیٹ ٹرک بنانے کی کوشش کر رہی ہے تو بی جے پی محض تین ارکان اسمبلی کے ساتھ ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے ۔ پردیش کانگریس کی صدارت پر ریونت ریڈی کی تعیناتی کے بعد سے کانگریس میں نئی جان ڈالنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں اور کچھ حد تک عوامی سطح پر اس کے اثرات دکھائی بھی دے رہے ہیں لیکن کچھ قائدین جنہیںریونت ریڈی سے ناراضگی ہے اور ان کے طرز کارکردگی کو پسند نہیںکرتے وہ پارٹی سے دوریاں اختیار کر رہے ہیں۔ پارٹی رکن اسمبلی کومٹ ریڈی راج گوپال ریڈی کانگریس اور اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ اسی طرح اب یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ان کے بھائی اور رکن پارلیمنٹ کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی نے بھی وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کی ہے ۔ راج گوپال ریڈی کے تعلق سے کہا جا رہا تھا کہ وہ طویل عرصہ سے ناراض ہیں۔ جہاں تک وینکٹ ریڈی کی بات ہے تو وہ بھی ابتداء میں ریونت ریڈی سے ناراض تھے لیکن بعد میں یہ اختلافات دور ہونے کا بھی دعوی کیا گیا تھا ۔ اب اچانک ان کی امیت شاہ سے ملاقات کانگریس کیلئے اچھی خبر نہیں کہی جاسکتی ۔ اسی طرح پارٹی کے ریاستی ترجمان ڈی سراون نے بھی کانگریس سے استعفی پیش کردیا ہے اور وہ بھی بی جے پی میں شمولیت اختیارکرنے والے ہیں۔ راج گوپال ریڈی بھی بی جے پی میں جائیں گے جبکہ وینکٹ ریڈی کے تعلق سے ابھی کوئی صورتحال واضح نہیں ہے۔ یہ صورتحال کانگریس کیلئے ہرگز اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔
کانگریس پارٹی میں ویسے تو ہمیشہ ہی اختلافات رہے ہیں۔ کچھ گروپ بندیاں بھی رہی ہیں۔ یہی وجہ رہی ہے کہ کانگریس کی اس صورتحال سے ٹی آر ایس نے فائدہ اٹھایا ہے ۔ بی جے پی بھی اب اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ تاہم کانگریس کے جو قائدین ہیں انہیں اپنے نظریات کا احترام کرنا چاہئے تھا ۔ بی جے پی میں اقتدار کے لالچ میں یہ قائدین شامل ہو رہے ہیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ریاست میں بی جے پی کے صرف تین ارکان اسمبلی ہیں اور تلنگانہ میں اقتدار کا حصول اب بھی بی جے پی کیلئے دن کا خواب ہی کہا جاسکتا ہے ۔ کانگریس پارٹی جہاں ٹی آر ایس کا اقتدار ختم کرنے اور خود اقتدار پر واپسی کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس کیلئے یہ صورتحال مشکل پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔ قائدین میں جو اختلافات ہیں ان کو دور کرنے پر خاص توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ مرکزی قیادت کو بھی اس معاملہ میں دلچسپی لینے کی ضرورت ہے ۔ قائدین کے آپسی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے متحدہ طور پر اگر کوشش کی جاتی ہے تو پھر کانگریس ایک موثر انداز میں عوام سے رجوع ہونے کے موقف میںآسکتی ہے ۔انتخابی نتائج کیا ہوسکتے ہیں یہ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ ابھی اس کیلئے وقت ہے لیکن داخلی اختلافات کے ساتھ انتخابات کا سامنا کرنا کسی بھی پارٹی کیلئے آسان نہیں ہوتا ۔ اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ قائدین کے آپسی اختلافات کو ختم کیاجائے ۔ ایک ایجنڈہ تیار کرتے ہوئے اس کو پورا کرنے کیلئے کام کیا جائے ۔
تلنگانہ میں کانگریس اچھی حالت میں نہیں ہے۔ اس کے جو بھی ارکا ن اسمبلی منتخب ہوئے تھے وہ ٹی آر ایس میں شامل ہوچکے ہیںاور اسے اسمبلی نشستوں کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر جانا پڑا ہے ۔ ایسے میں اگر مزید قائدین انحراف کرتے ہیںاور دوسری پارٹیوں میںشامل ہوتے ہیں تو پارٹی کی مشکلات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گی ۔ تمام قائدین کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہوگی کہ آپسی اتحاد اور ایک جٹ ہو کر ہی ریاست میں عوام سے رجوع ہوا جاسکتا ہے ۔ ٹی آر ایس کا مقابلہ کرنا کانگریس کیلئے اب بھی آسان نہیں ہے اور اگر کچھ قائدین کی دوسری پارٹیوں میں شمولیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو یہ کام اور بھی مشکل ہوجائیگا۔اختلافات کو جتنا جلد ختم کیا جائیگا پارٹی کیلئے اتنا ہی بہترہوگا ۔
کورونا و منکی پاکس ‘ احتیاط ضروری
ملک میں ایک بار پھر کورونا کے کیسوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ملک کی چند ریاستوں میں صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے ۔ حالانکہ یہ اب بھی تشویشناک حدوں تک نہیں پہونچی ہے لیکن اس تعلق سے احتیاط بہت لازمی ہوگئی ہے ۔ منکی پاکس کے ابھی تک صرف مشتبہ مریض رپورٹ ہو رہے ہیں۔ یہ دونوں وبائی امراض ایسے ہیں جن کے تعلق سے حد درجہ احتیاط لازمی ہے ۔ جہاں تک کورونا کی بات ہے تو اب تک ملک میں اس کی وجہ سے بے تحاشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ لاکھوں لوگ اس کی وجہ سے فوت ہوگئے ہیں۔ ملک میںلاک ڈاون کی وجہ سے الگ سے مشکلات پیش آئی ہیں۔ ۔اس کی وجہ سے زندگی تھم سی گئی تھی ۔ لوگوں کا روزگار اور تجارتیں متاثر ہوگئی تھیں۔ حکومتیں اور دوسرے ادارے بھی بے بس دکھائی دے رہی تھیں۔ عوام نے اس کی وجہ سے جو مشکلات جھیلیںہیں وہ ناقابل بیان کہی جاسکتی ہیں۔ ایک بار پھر کورونا کیسوں میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ حالانکہ یہ تشویشناک نہیں ہے لیکن عوام کو کورونا اور منکی پاکس دونوں ہی سے نمٹنے احتیاط سے کام لینا ہوگا ۔ معمولی سی بھی لاپرواہی نہیں کی جانی چاہئے کیونکہ مزیدکسی تباہی اور مشکلات کے متقاضی نہیں ہوسکتے۔