کانگریس میں قیادت کا مسئلہ

   

نگہ بلند سقن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
کانگریس میں قیادت کا مسئلہ
کانگریس پارٹی لوک سبھا انتخابات میں ہزیمت سے اب تک سنبھل نہیں پائی ہے ۔ نتائج کے بعد سے اب تک کانگریس صدمہ کی حالت میں ہے اور اس کو مسلسل صدموں کا شکار ہونا بھی پڑ رہا ہے ۔ اس کے صدر راہول گاندھی مستعفی ہوچکے ہیں۔ نئے صدر کا اب تک کوئی انتخاب عمل میں نہیں آسکا ہے ۔ مستقبل قریب میں ایسا ہونے کے امکانات بھی فی الحال نظر نہیں آ رہے ہیں۔ گوا میں اس کے ارکان اسمبلی بی جے پی میںشامل ہوچکے ہیں۔ تلنگانہ میں سی ایل پی کو ٹی آر ایس میںضم کرلیا گیا ہے اور کرناٹک میں اس کی جے ڈی ایس کے ساتھ والی مخلوط حکومت زوال کا شکار ہوچکی ہے ۔ پارٹی میں داخلی طور پر بحران کی کیفیت ہیں۔ ایک طرح کا اضطراب آمیز سکون پایا جاتا ہے ۔ کوئی بھی لیڈر کھل کر کسی مسئلہ پر اظہار خیال سے گریز کر رہا ہے ۔ پرینکا گاندھی کچھ حد تک سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔ کم از کم سوشیل میڈیا پر اور یو پی حکومت کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے کے معاملہ میں وہ ضرور سرگرم ہیں۔ راہول گاندھی وقفہ وقفہ سے کوئی بیان دیتے ہیں یا تبصرے کرتے ہیں۔ سونیا گاندھی خاموش ہیں۔ دوسرے قائدین بھی اپنی بساط کے مطابق سرگرم ہیں لیکن ان کی سرگرمیوں کا کوئی چرچا نہیں ہے اور نہ پارٹی کے اعتبار سے ان سے عملا کوئی سروکار رہ گیا ہے ۔ کچھ قائدین ہیں جو وقفہ وقفہ سے پارٹی کی صورتحال پر تبصرے کر رہے ہیںاور ان کا یہ ماننا ہے کہ راہول گاندھی کا جانشین کوئی نوجوان لیڈر ہی ہونا چاہئے اور پارٹی میں اعلی قیادت کی عدم موجودگی کے نتیجہ میں پارٹی کو مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی چند ریاستوں میں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس کیلئے بھی کانگریس کی تیاریوں کی ضرورت ہے اور یہ تیاریاں کسی نئے صدر کے انتخاب کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتیں۔ سینئر قائدین کے مشورے اسی وقت کارگر ثابت ہوسکتے ہیں جب کوئی باضابطہ قیادت ہو اور ان کو عملی شکل دینے کی کوشش کی جائے ۔ کئی ریاستوں میں مقامی سطح پر بھی حالات درست نہیںہیں اور ان کو سدھارنے اور بہتر بنانے کیلئے بھی ضروری ہے کہ قومی سطح پر قیادت سامنے آئے اور مستحکم انداز میں آئے ۔
کانگریس پارٹی اس گئی گذری حالت میں بھی ملک کے بیشتر حصوں میں اپنا وجود رکھتی ہے ۔ دوسری تمام اپوزیشن جماعتوں سے زیادہ بڑی ہے ۔ اس کا کارکنوں اور کیڈر کا نیٹ ورک ہے ۔ اس کا ماضی ہے اور سابقہ حکومتیںہیں۔ تنظیمی ڈھانچہ بھی ہے جو اب کمزور ہونے لگا ہے ۔ اس ڈھانچہ کی ہی مدد سے کانگریس پارٹی دوبارہ اپنے آپ کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے تاہم اس کیلئے شرط یہی ہے کہ وہ نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ اٹھے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرے ۔ کانگریس پارٹی ایک نئی اور تازہ دم قیادت کے ساتھ نئے منصوبوں کے ساتھ اور ایک پختہ عزم کے ساتھ میدان میں آنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بات نہ صرف پارٹی کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے بلکہ پارٹی کے نچلی سطح تک کے کارکنوں کو بھی سمجھنا چاہئے ۔ جب تک اپنے آپ میں حوصلہ پیدا نہیں ہوگا پارٹی کی قیادت ہو یا کارکن ہوں یا کیڈر ہو وہ عوام میں موثر ڈھنگ سے خود کو پیش نہیںکرپائیں گے۔ آج بی جے پی اپنے عروج پر ہے ۔ اسے زبردست طاقت حاصل ہے ۔ عوامی تائید کا وہ دم بھرتی ہے ۔ میڈیا اس کے ساتھ ہے ۔ کارپوریٹ لابی بی جے پی کیلئے کام کرتی ہے ۔ ان سب نامساعد حالات میں کانگریس کو شدید نقصانات ہوئے ہیں لیکن اگر پارٹی حوصلہ ہار بیٹھتی ہے تو یہ سب سے بڑا نقصان ہوگا ۔ انتخابی شکست اور کامیابی وقتی ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے حوصلہ نہیںہارا جانا چاہئے ۔
ملک میں جو سیاسی حالات پیدا ہوگئے ہیں اور طرح کا ماحول سارے ملک میں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کا علاقائی جماعتیں موثر انداز میں مقابلہ نہیںکرسکتیں۔ ہر علاقائی جماعت کے اپنے حدود اور اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق وہ سمجھوتے کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔کانگریس ایسا کوئی سمجھوتہ نہیںکرسکتی ۔ اس کیلئے بی جے پی سے مقابلہ ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعہ وہ اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکتی ہے ۔ پارٹی کو نئے سرے سے اپنے آپ کو مستحکم کرنے پر توجہ کرنا ہوگا ۔ اقتدار اور عہدوں کے لالچی قائدین کو چاہے وہ کتنے ہی سینئر کیوں نہ ہو اپنی صفوں سے نکال باہر کرکے ملک ‘ جمہوریت ‘ دستور اور قوم کی بھلائی کیلئے بے تکان جدوجہد کرنے والوں کو موقع دیتے ہوئے آگے آنا ہوگا ۔