کانگریس میں مصالحانہ پہل

   

Ferty9 Clinic

لذّتِ گردشِ ایّام وہی جانتے ہیں
جو کسی بات پہ اُٹھ آئے ہیں میخانے سے
کانگریس میں مصالحانہ پہل
ملک کی سب سے قدیم جماعت کانگریس ان دنوں انتشار کا شکار ہے ۔ بحیثیت قومی سیاسی جماعت کانگریس کا وجود ہی خطرہ میں پڑ گیا ہے اور پارٹی اب اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے ۔ چند ہفتے قبل کانگریس کے سینئر اور ذمہ دار قائدین نے پارٹی کے داخلی حالات پر ایک مکتوب تحریر کرتے ہوئے پارٹی کو روانہ کیا تھا جس میں پارٹی کی خامیوں اور نقائص کو اجاگر کیا گیا تھا ۔ اس مکتوب کے بعد پارٹی میں داخلی خلفشار مزید تیز ہوگیا تھا اور کئی قائدین ایک دوسرے کے خلاف تنقیدیں کرنے لگ گئے تھے ۔ اس صورتحال میں پارٹی کی تنظیمی حالت میںسدھار کی بجائے مزید بگاڑ کے اندیشے بڑھ گئے ہیں۔ بہار اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد میں شامل رہنے کے باوجود کانگریس کے ناقص مظاہرہ نے صورتحال کو اور بھی ابتر کردیا تھا ۔ ان حالات میں یہ بہت زیادہ ضروری تھا کہ پارٹی اپنا محاسبہ کرے ۔ حکومت کو نشانہ بنانے سے پہلے اپنی حالت میں سدھار پیدا کرے ۔ داخلی اختلافات کو ختم کیا جائے ۔ نچلی سطح سے لے کر سینئر اور ذمہ دار قائدین تک میں اعتماد بحال کرنے اور انہیں متحریک کرنے کیلئے ایک منصوبہ تیار کیا جائے ۔ تمام کارکنوں اور قائدین کے جذبات و احساسات کے مطابق ایک جامع حکمت عملی تیار کی جائے ۔ جب تک داخلی سطح پر اختلافات کو دور نہیں کیا جاتا اور انتشار کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک پارٹی عوامی کاز کو آگے بڑھانے یا حکومت سے مقابلہ کرنے کے موقف میں نہیں آسکتی ۔ اس صورتحال میں سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کے انتقال نے صورتحال کو اور بھی مشکل کردیا تھا تاہم مدھیہ پردیش کے سینئر لیڈر کمل ناتھ نے ایک اہم ذمہ داری نبھاتے ہوئے سینئر اور باغی قرار دئے گئے قائدین سے ملاقات کیلئے سونیا گاندھی کو رضامند کرواتے ہوئے ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس سے حالات کو بہتر بنانے کی سمت پیشرفت ہوسکتی ہے ۔ ناراض قائدین اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے احساسات سے واقف کرواسکتے ہیں اور ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے پارٹی قیادت بھی اپنے مستقبل کی حکمت عملی کا تعین کرسکتی ہے ۔
پارٹی کے ناراض قائدین کی ہفتے کو سونیا گاندھی سے ملاقات ہونے والی ہے ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو قائدین ناراض یا باغی قرار دئے جا رہے ہیں انہوں نے کانگریس کے ساتھ ایک طویل وقت گذارا ہے بلکہ ان کا سارا سیاسی کیرئیر ہی کانگریس سے وابستہ رہا ہے ۔ ان کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا پارٹی کیلئے بھی ضروری ہے ۔ انہوں نے جو رائے ظاہر کی تھی وہ پارٹی کے مفادات میں تھی ۔ ان قائدین نے پارٹی کو دوبارہ فعال ‘ مستعدا ور سرگرم کرنے کیلئے اپنی آرا کا اظہار کیا تھا اور اس کو پارٹی سے بغاوت قرار دیتے ہوئے ان قائدین کو نشانہ بنایا جانا کانگریس پارٹی کے مفاد میں نہیں ہوگا ۔ کانگریس کی ملک بھر میں جو موجودہ صورتحال ہے وہ بہتر نہیں ہے ۔ یہ پارٹی کیلئے بقا کی لڑائی ہے اور اس میں سینئر قائدین ہوں یا پارٹی قیادت ہو سبھی کو پارٹی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذاتی انا کو ترک کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ پارٹی کیلئے نئے صدر کے انتخاب سے قبل تمام قائدین کو اعتماد میں لینا اور سب کی رضا مندی سے نئے صدر کا انتخاب کرنا بہت زیادہ ضروری ہے ۔ جس طرح سینئر قائدین نے کہا تھا ‘ اس کے مطابق پارٹی کا صدر متحرک ہونا چاہئے اور عوام کے درمیان ہونا چاہئے اور پارٹی قائدین کیلئے دستیاب رہنا چاہئے ۔ اسی طریقہ سے پارٹی اپنے کیڈر میں حوصلے بلند کرسکتی ہے ۔ پارٹی ترک کرنے والے قائدین کو روکا جاسکتا ہے اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے ۔
اب جبکہ ناراض قائدین سے سونیا گاندھی نے ملاقات کرنے سے اتفاق کرلیا ہے یہ ضروری ہے کہ اس ملاقات کو ثمر آور بنانے کی کوشش کی جائے ۔ ہر دو فریقین کو لچکدار موقف اختیار کرتے ہوئے پارٹی اور ملک کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ تبادلہ خیال ہونا چاہئے ۔ اختلاف رائے کو بغاوت قرار دینے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ کانگریس اگر اپنے داخلی اختلافات کو اب بھی ختم نہیں کرپاتی ہے تو پھر اس کے وجود پر ہی سوال اٹھنے لگیں گے ۔ کانگریس مکت بھارت کے نعرہ کو ناکام بنانا خود کانگریس کی ذمہ داری ہے اور اس کیلئے نچلی سطح کے کارکنوں سے لے کر اعلی ترین قیادت تک سبھی کو ایک عہد کے ساتھ اور جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔