کانگریس نے معیشت کو مستحکم کیا تھا لیکن ؟

   

پی چدمبرم
سابق وزیر فینانس

ایسا لگتا ہیکہ یہ بہت پرانی بات ہے اور اسے ماضی کی یادوں میں شمار کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے بمشکل تیس سال کا عرصہ گذرا ہوگا اور وہ تمام چیزیں ہماری یادوں میںمحفوظ ہیں۔ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ تین دہے قبل ہمارے ملک میں شہری ہوابازی کی بے شمار کمپنیاں، ٹیلی فون خدمات فراہم کرنے والی بیسیوں کمپنیاں یا پھر کاریں تیار کرنے اور فروخت کرنے والی درجنوں کمپنیاں نہیں تھیں۔ تین دہے قبل ہندوستان میں شہری ہوابازی کی ایک کمپنی انڈین ایر لائنز، ٹیلی فون خدمات فراہم کرنے والے صرف دو ادارے بی ایس این ایل اور ایم ٹی این ایل، صرف تین قسم یا برانڈس کی کاریں ایمبیسڈر، فیٹ اور ماروتی ہوا کرتی تھیں۔ راقم الحروف آپ کو یہ بھی بتانا چاہے گا کہ ٹیلی فون کنکشن حاصل کرنے کے لئے کافی انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ٹیلی فون کنکشن حاصل کرنے کے خواہاں افراد کی کثیر تعداد کے نتیجہ میں ان کے نام ویٹنگ لسٹ میں شامل کئے جاتے تھے حد تو یہ ہے کہ گیس کنکشن بھی حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا اسی طرح اسکوٹر وغیرہ بک کروانے کے کافی عرصہ بعد آپ تک پہنچ پاتی تھی یعنی اسکوٹر بھی آپ فوری طور پر نہیں خرید سکتے تھے۔ وہ ایسا دور تھا جس میں کئی چیزوں، سامان اور اشیائے ضروریہ (اجناس وغیرہ) کی قلت پائی جاتی تھی اور سب سے زیادہ قلت کی جو چیز تھی وہ بیرونی زرمبادلہ تھا ۔
1991 میں ہندوستانی معیشت ایسی ہی تھی اور ریاست کے زیر کنٹرول معیشت پر ایک سیاسی اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔ عوامی شعبہ کی اجارہ داری یا برتری، درآمد پر کنٹرول Import Control، مقررہ تبادلہ کی شرح لائسنسنگ، بازاروں کی شک و شبہ سے بھرپور حالت غرض کسی بھی سیاسی جماعت کو کوئی رعایت حاصل نہیں تھی یعنی اس طرح کے حالات سے کوئی بھی پارٹی ؎مبرا نہیں تھی۔ تمام میں اتفاق رائے پایا جاتا تھا، حکومت کی ان پالیسیوں کے بارے میں جن میں ناراضگی پائی جاتی تھی وہ بائیں بازو کی جماعتیں تھیں۔
جہاں تک 1991 کے پارلیمانی انتخابات کا سوال ہے کسی بھی سیاسی جماعت کو ان انتخابات میں واضح کامیابی کی توقع نہیں تھی اور جب نتائج منظر عام پر آئے تب کانگریس 232 نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے اقتدار کے لئے درکار جادوئی عدد کے کسی قدر قریب پہنچ سکی کسی نے بھی ملک کو خطرناک معاشی بحران سے کامیابی کے ساتھ نکالنے کا حکومت کو نصف موقع بھی نہیں دیا۔ تب پی وی نرسمہا راؤ جن کا کریئر بحیثیت کابینی وزیر صاف ستھرا رہا باالفاظ دیگر بے داغ رہا انہیں کسی غیر معمولی حالات واقعات کا سامنا کرنا نہیں پڑا وہ ایک سیاسی جادوگر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ انہوں نے ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کا بحیثیت وزیر فینانس انتخاب کیا اور اس انتخاب کو پی وی نرسمہا راؤ کا غیر معمولی اور دانشمندانہ انتخاب کہا جاسکتا ہے۔ مجھے اس وقت وزارت کامرس کا قلمدان سونپا گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس عہدہ پر میرا تقرر میری ایم بی اے ڈگری کی بنیاد پر کیا گیا۔
مجلس وزراء کے پہلے اجلاس میں پی وی نرسمہا راؤ نے معتمد کابینہ نریش چندرا کے لئے جو یادگار ریمارک تھا وہ یہ تھا ’’نریش‘‘ کیا آپ نے وزراء کے لئے گھوڑا، گاڑی پانے میں کامیابی حاصل کی ہے؟ہماری وزارت کے اولین دس یوم بہت ہی پھیکے اور دباؤ سے پر تھے۔ تمام حلقوں میں یہی خدشات پائے جاتے تھے کہ آیا نرسمہا راؤ کی زیر قیادت کانگریس کی اقلیتی حکومت اعتماد کا ووٹ حاصل کر بھی پائے گی یا نہیں۔ اس طرح کے خدشات میں ہر کوئی بلکہ خود وزیر اعظم بھی مبتلا تھے۔ ہندوستان کے جو بیرونی زرمبادلہ کے جو ذخائر تھے وہ بڑی تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو رہے تھے اور معیشت کے زوال کا خطرہ یقینی دکھائی دے رہا تھا۔ امریکی ڈالر کی غیر سرکاری شرح مبادلہ بڑی تیزی سے بڑھتی جارہی تھی۔ درآمد کنندگان اور برآمد کنندگان معاشی تباہی کے خوف سے منجمد ہوچکے تھے اور معاشی صورتحال کا حال اس قدر ابتر ہوچکا تھا کہ دور دور تک اس میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ایسی سرنگ ہوگئی ہے جہاں تک دور دور تک کوئی روشنی نہیں صرف تاریکی چھائی ہوئی ہو۔ ان حالات میں بائیں بازو کی جانب سے اعتراض سے پر کرخت آوازیں بلند ہو رہی تھیں شو شلزم کے بلندبانگ دعوے بھی کئے جارہے تھے اور مشکل سے کوئی سیاسی قائد فراخدلانہ معیشت کے بارے میں اظہار خیال کررہا تھا۔ سب کی زبانیں بند تھیں۔ ان سنگین معاشی حالات میں 6 شخصیتیں ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑی رہیں جن میں معتمد کابینہ نریش چندر، اے این ورما، مسٹر مونٹیک سنگھ اہلوالیہ، ڈاکٹر راکیش موہن، مسٹر ایس وینکٹ رامن اور ڈاکٹر سی رنگاراجن شامل تھے۔ جس وقت عوام 10 ویں لوک سبھا کا انتخاب کررہے تھے مذکورہ شخصیتوں نے معیشت کو سدھارنے منصوبہ تیار کیا۔پہلا قدم امکانی طور پر دھماکو خیز تھا اور وہ روپیہ کی قدر میں کمی تھا۔ اس وقت وزیر فینانس ڈاکٹر منموہن سنگھ نے یکم جولائی کو روپے کی قدر میں 9 فیصد کمی لاتے ہوئے اپنی اقتصادی پالیسی کے پہلے فارمولہ کی آزمائش کی۔ 3 جولائی کو بڑی مہارت سے ترپ کا دوسرا پتہ استعمال کیا اور روپے کی قدر میں 10 فیصد کمی کی۔
معاشی بحران کے تسلسل کا ٹوٹنا
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے میرے اور ڈاکٹر مونٹیک سنگھ اہلوالیہ پر دباؤ ڈالا جس پر ہم نے تجارتی پالیسی میں تبدیلیوں کا ایک 13 نکاتی پیاکیج متعارف کروایا اور اس پیاکیج کا اعلان میں نے خود 4 جولائی کو طلب کردہ ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ تجارتی پالیسی کا اعلان وزارت کامرس کی ادائیگی سے پرے تھا، اس وقت میں نے لوگوں خاص کر اپوزیشن جماعتوں کے ذہنوں میں پنپ رہے خدشات کو دور کرنے کی خاطر مالی اور صنعتی پالیسی بیرونی سرمایہ کاری، درآمدات کو غیر مرکوز کرنے، بیشتر امپورٹ لائسنسوں کی منسوخی اور ٹریڈ اکاؤنٹ پر روپے کی تغیر پذیری اور اس کے تبادلہ سے متعلق کئے گئے موزوں اقدامات کی وضاحت کی۔ میں نے اُس پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا کہ ہم نے جو کچھ اقدامات کئے ہیں ان اقدامات کو وزیر اعظم اور وزیر فینانس کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ اس طرح وزارت فینانس کو اس کی کشتی آگے بڑھانے میں ایک تازہ ہوا اور تازہ ہوا کے جھونکے حاصل ہوئے۔ اس طرح وزارت صنعت نے بھی نئی صنعتی پالیسی کو منظر عام پر لایا اور پھر 24 جولائی کو ایسا وقت بھی آیا جب ایک عہد ساز بجٹ پیش کیا گیا اور وہ بجٹ لڑکھڑاتی بلکہ جمود کا شکار ہندوستانی معیشت کے لئے ایک اہم سنگ میل اور اہم موڑ ثابت ہوا۔
بہرحال ملک کی معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے دو چار افراد نے جو مضبوط اصلاحات نافذ کئے پارلیمنٹ میں اس بریگیڈ کو اپوزیشن کی شدید برہمی اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور سب سے زیادہ مخالفت چندر شیکھر نے کی چنانچہ حکومت پر ان کے شدید و رکیک حملوں کو کمزور کرنے بلکہ ناکام بنانے کے لئے میں نے وہ فائل اٹھائی جو انہوں نے بحیثیت وزیر اعظم منظوری دی تھی۔ اس فائل میں وہ تجاویز تھیں جو ملک کی تجارتی پالیسی کو فراخدالانہ بنانے کے لئے وزارت کامرس کو پیش کی گئی تھیں۔ تاہم اس پر کوئی عمل آوری نہیں کی جاسکی تھی۔ چندر شیکھر نے ان تجاویز پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی اور یہ کہتے ہوئے اسے سرے سے ہی مسترد کردیا کہ وہ تو صرف تجاویز تھیں اور ان پر کبھی عمل آوری نہیں کی جانے والی تھی۔
راقم الحروف حکومت کی پالیسی کے تحت انقلابی تبدیلیاں لانے میں پوری طرح محو ہوگیا۔ اس سلسلہ میں ہم نے سب سے پہلے چیف کنٹرولر آف امپورٹس اینڈ اکسپورٹ کے عہدہ کو برخاست کردیا۔ انڈین ٹریڈ سرویس کو بھی ختم کیا اور ہم نے بلند عزائم و حوصلوں کے ذریعہ جوکھم بھرے اقدامات کئے اور ان رکاوٹوں و خامیوں کو دور کرنے میں کامیابی حاصل کی جس میں ہماری عظیم تجارتی قوم تقریباً 40 برسوں سے پھنسی ہوئی تھی۔ ان فراخدلانہ معاشی اقدامات کے آخر میں یہ ہوا کہ ڈاکٹر سنگھ نے مسٹر مونٹیک سنگھ اہلوالیہ کو مجھ سے ’’چرالیا‘‘ اور مجھے مسٹر اہلوالیہ اور ڈاکٹر وائی وی ریڈی کو وزارت فینانس جاتے ہوئے دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ یہ دونوں میرے ساتھ میری وزارت کامرس میں ہی خدمات انجام دیں۔ ان دونوں کے وزارت فینانس چلے جانے سے جو دکھ تھا وہ مسٹر اے وی گنیشن کے ملنے پر خوشی میں تبدیل ہوگیا لیکن وزیر شہری ہوابازی مسٹر مادھو راؤ سندھیا مجھ پر اس بات کے لئے غصہ تھیکہ میں نے ان کا سکریٹری چرالیا!
نئی تجارتی پالیسی : ۔
میں پوری طرح یہ تہیہ کرچکا تھا کہ ایک نئی تجارتی پالیسی رقم کروں گا۔ میری ہدایات بالکل واضح تھیں 100 (1) صفحات اس سے ایک صفحہ بھی زیادہ نہیں۔ (2) سہل و آسان انگریزی، کوئی بے معنی گفتگو نہیں لیکن کون پالیسی اور طریقہ کا کی بیاض رقم کرے گا؟ یہ سوال سب سے اہم رہا۔ ساری وزارت میں کوئی بھی اس کام کے لئے راضی نہیں تھا اور ناہی اس کا اہل تھا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ ایک اتوار کو میں تجارتی پالیسی کا پہلا باب رقم کروانا شروع کیا۔ جیسے ہی ایک ایک باب ختم ہوتا مسٹر گنیشن طریقہ کار کے بیاض کا مراسلتی باب لکھتے جاتے اور انہوں نے ہی ہر باب کے ختم پر بیاض کا کرسپانڈنگ باب تحریر کیا۔ ہم نے یہ کام مقررہ وقت میں ہی ختم کرلیا اور 31 مارچ 1992 کو نئی تجارتی پالیسی جاری کی۔ وہ 9 ماہ بہت ہی مصروف ترین رہے۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمیشہ ہمارے پاس صلاحیتں رہی ہیں لیکن ہم نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کیا۔ ہماری مثال اس پرندہ کی تھی جس کے پر تو تھے لیکن وہ پرواز بھول گیا تھا۔ 30 سال قبل اِس ہفتہ میں ہم نے آسمانوں کو چھولیا تھا۔