کانگریس پر ممتابنرجی کا موقف نرم

   

ہم کو دعائیں دو کہ یہاں سب ہیں متفق
آنچل کو تیرے امن کا پرچم بنادیا
کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی کامیابی کے بعد سے ملک میں ماحول میں کچھ تبدیلی ضرور محسوس ہونے لگی ہے ۔ خاص طور پر سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیوں میںاضافہ ہوا ہے اور کچھ سیاسی جماعتیں اورقائدین اب اپنے موقف پر نظرثانی کرنے لگے ہیں۔ ویسے تو گذشتہ چند مہینوں سے ملک میںاپوزیشن اتحاد کی تجویز پر سرگرمیاں چل رہی ہیں اور کچھ قائدین میں اس مسئلہ پر تبادلہ خیال بھی ہوا ہے ۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات سے قبل جو ماحول تھا وہ اب کچھ بدلتا ہوا نظر آر ہا ہے ۔ جو جماعتیں کسی بھی قیمت پر کانگریس کے ساتھ اتحاد یا مفاہمت کی بات کرنے کو بھی تیار نہیں تھیں اب انہیں بدلتے ہوئے حالات میںکانگریس کی اہمیت کا اندازہ ہونے لگا ہے ۔ وہ کانگریس کو یکسر نظرانداز کرنے یا اس کے وجود سے ہی انکار کرنے کی بجائے کسی حد تک اس کی جانب راغب ہونے لگے ہیں۔ویسے تو چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے جب اپوزیشن اتحاد کیلئے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا تو انہوں نے چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی اور سابق چیف منسٹر اترپردیش اکھیلیش یادو سے ملاقات کی تھی ۔ دونوں ہی نے دبے دبے الفاظ میں کانگریس کے ساتھ آنے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا حالانکہ دونوں ہی اپوزیشن اتحاد کے حامی تھے ۔ تاہم اب جبکہ کرناٹک میں کانگریس نے بی جے پی کو کراری شکست سے دوچار کیا ہے ایسے میں ممتابنرجی نے کھل کر کانگریس کی تائید کا اظہار کیا ہے ۔ ممتابنرجی نے جس رائے کا اظہار کیا ہے وہ قابل قدر ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جن ریاستوں میں کانگریس کا موقف مستحکم ہے وہاں تمام اپوزیشن جماعتوںکو کانگریس کی تائید کرنی چاہئے تاکہ وہاں وہ بی جے پی سے مقابلہ کرسکے ۔ ممتابنرجی کے بموجب کانگریس کو بھی دیگر جماعتوں کی تائید حاصل کرنے مستحکم اورمضبوط علاقائی جماعتوں کی ان کی اپنی ریاستوں میں تائید کرنی چاہئے ۔ ایک طرح سے ممتابنرحی نے لو اور دو کی پالیسی کا اشارہ دیا ہے اور یہ ایک اچھی تجویز ہے ۔ جو جماعت جس ریاست میں اور جس حلقہ میںمستحکم موقف رکھتی ہے اس کی تائید کرنے دوسری جماعتوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔
کانگریس کی کرناٹک میں کامیابی نے ممتابنرجی کے موقف میں قدرے نرمی پیدا کی ہے ۔ انہوں نے جو تجویز پیش کی ہے وہ قابل غور ضرور ہے ۔ واقعی جن ریاستوں میں کانگریس کا راست بی جے پی سے مقابلہ ہو وہاں دیگر جماعتوں کو کانگریس کی تائید کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کو مستحکم کرنا چاہئے ۔ ساتھ ہی جن ریاستوں میں علاقائی جماعتیں مستحکم ہیں وہاں کانگریس کو فراخدلی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے علاقائی جماعتوں کی تائید سے گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی مستحکم ہے ‘ مغربی بنگال میں ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس مستحکم ہے اسی طرح بہار میں آر جے ڈی اور جے ڈے یو ہیں‘ ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے ہے ۔ مہاراشٹرا میںشیوسینا ادھو ٹھاکرے اور این سی پی بھی کانگریس کے ساتھ مستحکم ہیں۔ مزید کچھ ریاستوں میں بھی علاقائی جماعتیں اپنے طورپر بی جے پی سے مقابلہ کرسکتی ہیں۔ ان تمام امور کو کسی بھی اپوزیشن اتحاد سے قبل نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ راجستھان ‘ تلنگانہ اور میزورم میں جاریہ سال کے ختم تک اسمبلی انتخابات ہوسکتے ہیں ۔ وہاں تلنگانہ کے سواء دیگر تمام ریاستوں میںکانگریس کا بی جے پی سے راست مقابلہ ہوسکتا ہے ۔ ایسے میںعلاقائی جماعتوں کو کانگریس کی تائید سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ ان ریاستوںمیں کانگریس کو مستحکم کرتے ہوئے کانگریس کی تائید مختلف ریاستوں میں علاقائی جماعتیں حاصل کرسکتی ہیں۔
چیف منسٹر نتیش کمار نے جب اپوزیشن اتحاد کیلئے کوششوں کا آغاز کیا تھا تو ان کا یہی کہنا تھا کہ بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کو متحد ہوکر راست مقابلہ پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ممتابنرجی نے بھی تقریبا اسی خیال کا اظہار کیا ہے ۔ جہاں جو علاقائی جماعت مستحکم اور طاقتور ہے اس کی اہمیت سے انکار نہیںکیا جاسکتا ۔ کانگریس کو بھی علاقائی جماعتوں کی اہمیت کوتسلیم کرنا ہوگا اور ان کے ساتھ فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی ریاستوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں اس کا راست مقابلہ بی جے پی سے ہو اور علاقائی جماعتیں میدان میں نہ ہوں۔ اس طرح سے اپوزیشن کی کامیابی کے امکانات میںاضافہ کیا جاسکتا ہے ۔