کانگریس کا انتشار

   


جیسے جیسے ملک کی چند ریاستوں اور پھر 2024 میںعام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کی تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ اپنے آپ کو مستحکم کرنے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ہر جماعت میںکوشش کی جا رہی ہے ۔جو قائدین ناراض ہیں انہیں منایا جا رہا ہے ۔ پارٹی چھوڑ چکے قائدین کو واپس لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ پارٹی کے پروگرامس اور حکمت عملی میں جو خامیاں ہیں انہیں دور کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے اور انتخابات کی حکمت عملی بنانے کا کام شروع ہوچکا ہے ۔ کچھ جماعتیں بالواسطہ طور پر اپنی انتخابی مہم کا آغاز بھی کرچکی ہیں۔ ان سب میں کانگریس ایسا لگتا ہے کہ انتخابی عمل سے ایک طرح سے بہت دور ہوتی جا رہی ہے ۔ حالانکہ اب بھی ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہونے کے باوجود کانگریس پارٹی اپنے مستقبل کے تعلق سے وہ کچھ نہیں کر رہی ہے یا نہیں کر پا رہی ہے جو اسے کرنا چاہئے ۔ اس کی صفوں میں انتشار ختم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ پارٹی کے سینئر قائدین جو ناراض ہیں انہیں پارٹی اپنے ساتھ متحدہ طور پر لا کھڑا کرنے میں اب تک ناکام ہے اور اس کا اثر یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ یہ قائدین پارٹی سے تو دوری اختیار نہیں کر رہے ہیں لیکن پارٹی کے عہدوں کو چھوڑتے ہوئے پارٹی کے خلاف ماحول کو ہوا دے رہے ہیں۔ اگر یہ قائدین پارٹی چھوڑ دیتے ہیں تو اتنا منفی اثر نہیں ہوتا جتنا یہ لوگ پارٹی میں رہتے ہوئے اور پارٹی کے عہدہ چھوڑتے ہوئے پیدا کر رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال کانگریس کیلئے انتہائی مایوس کن ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ امید کی جا رہی تھی اور بحیثیت اپوزیشن جماعت کانگریس کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے عوام کی تائید حاصل کرنے کے منصوبے تیار کئے جائیں اور ان پر عمل کیا جائے ۔ تاہم کانگریس کس لمحہ کا انتظار کر رہی ہے یہ کسی کو نہیں پتہ ۔ پارٹی نے مستقل صدر کے انتخاب کا مسئلہ بھی مسلسل ٹالتے ہوئے صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے مزید پیچیدہ کر رہی ہے ۔ پارٹی کی اعلی قیادت میں خود بھی اس تعلق سے کوئی واضح حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی ۔
کانگریس لیڈر راہول گاندھی حالانکہ مسلسل حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ حکومت کی ناکامیوں اور ان کے خیال میں حکومت کے من مانی فیصلوں اور اسکامس وغیرہ کو بھی منظر عام پر لانے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اس معاملہ میں اس بات کی بھی پرواہ کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ خود ان کی پارٹی کے کتنے قائدین ان سے اتفاق کر رہے ہیں اور ان کا ساتھ دینے کو تیار ہیں ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پارٹی قائدین کے بغیر تنہا راہول گاندھی کی جدوجہد وہ نتائج حاصل نہیں کر پائے گی جس کی امید کی جا رہی ہے یا جس کی کانگریس پارٹی کو ضرورت ہے ۔ ملک میں جو میڈیا یا صنعتی گھرانوں اور حکومت کے حاشیہ برداروں کے ٹی وی چینلس ہیں وہ راہول گاندھی کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی بجائے منفی پہلو کو تلاش کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ عوامی مسائل اور ان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی بجائے کانگریس کے سینئر قائدین کی دوریوں پر ان کی زیادہ توجہ ہے ۔ موجودہ صورتحال میں راہول گاندھی ہوں یا کانگریس کے دوسرے بڑے قائدین سونیا اور پرینکا گاندھی ہوں انہیں وقت کی نزاکت اور ضرو رت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنے پر غور کرنا ہوگا ۔ سینئر قائدین کی ناراضگی کو دور کرنے کیلئے حتی المقدور کوشش کی جانی چاہئے ۔ پارٹی کے اختلافات کو داخلی سطح پر ہی حل کرنے کی حکمت عملی ہونی چاہئے ۔ عوامی حلقوں میں متحدہ موقف کو پیش کرنا کانگریس کے وجود کیلئے بھی بہت ضروری ہے ۔
یکے بعد دیگر جو سینئر قائدین کانگریس پارٹی میں اختلافی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اور ہتک محسوس کرتے ہوئے پارٹی عہدوں کو ترک کر رہے ہیں ان کی شکایات کی سماعت ہونی چاہئے ۔ انہیںپارٹی کے موقف کو بہتر اورموثر انداز میںسمجھاتے ہوئے ساتھ لانے کی ضرورت ہے ۔ ان کی تجاویز اگر بہتر ہوں تو انہیں بھی پارٹی کی حکمت عملی کا حصہ بنایا جانا چاہئے ۔ جب تک اختلافات ختم نہیں ہونگے ‘ انتشار کو روکا نہیں جائیگا ‘ ایک مقصد کے تحت اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہیں کیا جائیگا ‘ ساری پارٹی کو ایک آواز نہیں بنایا جائیگا اس وقت تک کانگریس اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرے گی اور اس کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائے گا ۔