کانگریس کیلئے مستقبل کا سفر

   

کیا بات ان کے دل میں ہے اس کا پتہ نہیں
ملتے ہیں یوں تو ہم سے سبھی بن کے مہرباں
حالانکہ ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس نے کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے ۔ عوام کی زبردست تائید کے ساتھ اسے اقتدار حاصل ہوا ہے اور اس کے ووٹوں کے تناسب میں بھی اضافہ ہوا ہے تاہم یہ کامیابی پارٹی کیلئے محض ایک سنگ میل ہے اوراس کیلئے اب بھی ایک طویل سفر باقی ہے اور اس سفر کو پورا کرنے کیلئے بے تکان جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ کانگریس کارکنوں اور قائدین کیلئے کرناٹک کی کامیابی ایک بہتر شروعات فراہم کرنے کا باعث ہوسکتی ہے تاہم اس کو قطعی کامیابی نہیںسمجھا جاسکتا ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور اب شائد آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے بھی ایک سال کا ہی وقت رہ گیا ہے ۔ ایسی صورتحال میں کانگریس اور اس کے قائدین کو جامع منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ جس طرح سے کرناٹک میں کانگریس کے ریاستی قائدین نے باہمی اتحاد کے ساتھ کام کیا ہے ۔ بی جے پی کو فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا تھا اسی طرح ہر ریاست کیلئے ریاستی قیادت کو موقع دیتے ہوئے بہتر اور منظم منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ کرناٹک کی جیت نے کانگریس کیلئے یہ ایک پیام بھی دیا ہے کہ اسے ہر ریاست میں ایک مضبوط اور مستحکم قیادت کو تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ماضی میں ہر ریاست میں کانگریس کی ایک مستحکم قیادت ضرور ہوا کرتی تھی جس کے نتیجہ میں اسے مرکز میں بھی استحکام حاصل رہا کرتا تھا ۔ تاہم حالیہ چند برسوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ریاستی سطح پر کئی ریاستوں میں کانگریس کو قیادت کا مسئلہ درپیش ہے ۔ اگر کہیں قیادت ہے بھی تو ایک آدھ فرد تک محدود ہے ۔ ایک سے زائد قیادت کو موقع دینے اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ۔ ریاستی سطح پر استحکام اور عوام کی تائید کے بغیر مرکزی سطح پر کانگریس مستحکم نہیں ہوسکتی اور نہ ہی بی جے پی کا ایک طاقتور متبادل بن کر عوام کے سامنے پیش ہوسکتی ہے ۔ کرناٹک کی کامیابی سے کانگریس کو جہاں تقویت حاصل ہوئی ہے وہیںاس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔
اب چھتیس گڑھ ‘ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ تلنگانہ وغیرہ میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ہر ریاست کی اپنی مسلمہ اہمیت ہے ۔ ہر ریاست کی کامیابی ملک کے آئندہ پارلیمانی انتخابات پر چھاپ چھوڑ سکتی ہے ۔ ایسے میں کانگریس کو محض کرناٹک کی کامیابی پر مطمئن ہو کر بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آنے والے ہر دن کے حالات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی ۔ بی جے پی کی حکمت عملی کو بھی پیش نظر رکھنا اہمیت کا حامل ہوگا ۔ بی جے پی کو اگر مزید کامیابیوں سے روکنا ہے تو اس کی پالیسیوںاور چالبازیوں پر روک لگانے کی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی ۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی کانگریس سے راست ٹکر ہے وہاں اپنی ریاستی قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان میں حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ راجستھان میں دو اہم قائدین میں اختلافات شدید ہوگئے ہیں۔ یہ سر عام بھی آگئے ہیں۔ اس مسئلہ کو کانگریس جتنا جلدی ممکن ہوسکے حل کرلے تو بہتر ہے ۔ چیف منسٹر اشوک گہلوٹ اور نوجوان لیڈر سچن پائلٹ دونوں ہی پارٹی کیلئے اہم ہیں اور کسی ایک کو نظر انداز کرنے کی کانگریس متقاضی نہیںہوسکتی ۔ اسی طرح چھتیس گڑھ میں اقتدار بچانے کیلئے بھی حکمت عملی کو ابھی سے قطعیت دینے کی ضرورت ہے ۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو بیدخل کرنے کیلئے بھی اسے ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ عوام کا اعتماد جیتنا ہے تو کرناٹک میںجو وعدے کئے گئے تھے ان پر عمل آوری میں کسی طرح کی تاخیر نہیں کی جانی چاہئے ۔
تلنگانہ میں بھی کانگریس حالانکہ جدوجہد کر رہی ہے اور ریاستی سطح پر قائدین کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ ان تمام قائدین کو آپسی اتحاد کی اہمیت سے واقف کروانا اور پارٹی ڈسیپلن کیا پابند بنانا بھی ضروری ہے ۔ تمام قائدین اگر یہ طئے کرلیں کہ ریاست میں پارٹی کو اقتدار پر واپس لانا ہے تو پھر حالات میں تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے ۔ حالانکہ یہ سفر بھی ایسا نہیں ہے کہ اطمینان سے منزل تک پہونچا جائے لیکن اس کیلئے جدوجہد سے گریز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ان تمام ریاستوں میں بہتر کارکردگی اور اقتدار حاصل کرنے میں اگر کانگریس کامیابی حاصل کرتی ہے تو پھر اس کیلئے 2024 میںعام انتخابات کی لڑائی زیادہ مشکل نہیں رہے گی ۔