کانگریس ۔ بی جے پی پوسٹر جنگ

   

کانگریس اور بی جے پی میں سیاسی جنگ اور ٹکراؤ کی کیفیت نئی نہیں ہے ۔ دونوں کی سیاست ایک دوسرے کے خلاف ہی گردش کرتی ہے ۔ بی جے پی جہاں کانگریس مکت بھارت کے نعرہ کے ساتھ حکمرانی چلا رہی ہے تو کانگریس ملک کے سیاسی نظام میں اپنی اہمیت کو منوانے کی جدوجہد میں مصروف ہے ۔ کانگریس نے گذشتہ دنوں کرناٹک میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دی تھی ۔ اس سے قبل ہماچل پردیش میں بھی کانگریس نے بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کرتے ہوئے خود حکومت قائم کرلی تھی ۔ تاہم جب سے کانگریس نے کرناٹک میں حکومت بنائی ہے اور بی جے پی کو کراری شکست سے دوچار کیا ہے اس وقت سے ہی دونوں جماعتوں کی سیاسی جنگ میںشدت اختیار کرگئی ہے ۔ جہاں بی جے پی کی جانب سے کئی برسوں سے کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو ایک منظم مہم کے ذریعہ نااہل قرار دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور اس کیلئے کئی گوشوں کا استعمال کیا گیا ہے اس میں میڈیا اور سوشیل میڈیا دونوں ہی شامل ہیں تو وہیں اب ایسا لگتا ہے کہ کانگریس بھی سوشیل میڈیا کی جنگ میں برابر کا رول ادا کرنے لگی ہے ۔ اب کانگریس یا اس کے قائدین کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنانے کی مہم شروع کردی ہے ۔ اس کیلئے سوشیل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے اور تیکھے وار کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اب ایک نئی پوسٹر جنگ شروع ہوگئی ہے ۔ کانگریس نے ایک دن قبل وزیر اعظم کو سب سے بڑا جھوٹا قرار دیتے ہوئے ایک پوسٹر جاری کیا تھا ۔ اس کے جواب میں بی جے پی نے ایک پوسٹر جاری کیا جس میں راہول گاندھی کو موجودہ دور کا راون قرار دیا گیا ۔ کانگریس نے اس کے جواب میں ایک پوسٹر جاری کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کو اڈانی کی کٹھ پتلی قرار دیا ہے جس پر بی جے پی نے بھی راہول گاندھی کو جارج سوروس کی کٹھ پتلی قرار دیا ہے ۔ ایسالگتا ہے کہ یہ لڑائی اب سیاسی لڑائی نہیں رہ گئی ہے بلکہ یہ شخصی لڑائی میں تبدیل ہونے لگی ہے اور یہ بات ملک کی جمہوریت اور انتخابی ماحول میں درست یا مناسب نہیں کہی جاسکتی ۔
سیاسی نقطہ نظر سے کسی سے اختلاف کرنا یا اتفاق کرنا ایک الگ بات ہوسکتی ہے لیکن شخصی طور پر جس طرح کی تنقیدیں ہو رہی ہیں اور جس طرح سے پوسٹرس جاری کئے جا رہے ہیں وہ درست نہیں کہے جاسکتے ۔ سیاسی اختلاف کا بھی معیار ہونا چاہئے ۔ ہندوستان میں یہ روایت رہی ہے کہ سیاسی مخالفین کا احترام کیا جاتا تھا ۔ ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی ۔ ان کی تجاویز پر غور کیا جاتا تھا ۔ اگر کوئی اتفاق کرتا بھی تو اس کا اعتراف ہوا کرتا تھا ۔ حکومتیں اپوزیشن کا احترام کیا کرتی تھیں اور اپوزیشن جماعتیں حکومتوں کے بعض کاموں کی نہ صرف ستائش کرتی تھیں بلکہ ان کی تائید بھی کرتی تھیں۔ گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں خواتین تحفظات بل کی منظوری میں بھی دیکھا گیا کہ بی جے پی نے یہ بل پیش کیا اور اس کو بہتر فیصلہ قرار دیتے ہوئے خواتین تحفظات بل کی کانگریس نے تائید کی اور اس کے حق میں ووٹ دیا ۔ اختلاف اور اتفاق سیاست اور خاص طور پر جمہوری سیاست کا حصہ ہیں۔ اختلاف اگر ہوتا ہے تو وہ بھی پالیسیوں اور نظریات کی بنیاد پر ہونا چاہئے ۔ کام کاج کے طریقہ کار پر ہوناچاہئے اور اگر اتفاق ہوتا ہے تو وہ بھی نظریات اور پالیسیوں کی بنیاد پر ہونا چاہئے ۔ کام کرنے کے طریقہ پر ہونا چاہئے ۔ اس طرح کے اختلافات ہوں یا اتفاق ہو شخصی بنیادوں پر نہیں ہونے چاہئیںاور نہ ہی شخصیت پرستی ہونی چاہئے۔ ہندوستان میں موجودہ دور میںکسی سے اختلاف بھی شخصیت کی بنیاد پر ہو رہا ہے اور اتفاق بھی شخصیت کی بنیاد پر ہی کیا جا رہا ہے ۔
سیاسی اختلافات کو شخصی عناد یا مخالفت تک نہیںپہونچایا جانا چاہئے ۔ یہ روایت بن گئی ہے کہ کہیں سے بی جے پی راہول گاندھی کو نشانہ بنادیتی ہے ۔ بے بنیاد دعوے کئے جاتے ہیں۔ من گھڑت الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ ان کی سیاسی شبیہہ کو متاثر کرنے اور بگاڑنے کی باضابطہ مہم چلائی جاتی ہے ۔ کانگریس بھی اب اس کا جواب دینے لگی ہے اور اسی سطح پر دے رہی ہے جس سطح پر بی جے پی مہم چلاتی ہے ۔ دونوں ہی کیلئے یہ مناسب طریقہ کار نہیں ہوسکتا ۔ سیاسی اختلافات کو سیاست تک محدود رکھنا چاہئے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ دونوں ہی جماعتیں اس معاملے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتی ہیں اور بہت آگے نکل گئی ہیں۔