کاوراؤ ٹسٹ ٹیوب بے بیس تھے ‘ تعقب اور وار کرنے والے میزائیل سے قدیم ہندوستان واقف تھا۔ آندھرا یونیورسٹی کے وی سی کا بیان

,

   

انہوں نے اپنے دعوی میں کہاکہ انگریزی ماہر طبیعیات چارلس ڈراؤن کی تھیوری برائے ارتقاء اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے بھگوان وشنو کے دس اوتار تھے۔

کاروراؤ کی پیدائش ٹسٹ ٹیوٹ ٹکنالوجی کا نتیجہ تھی اور ہندوستان ہزاروں سال قبل ہی تعقب اور وار کرنے والے میزائل سے واقف تھا ‘ اس طرح کا دعوی جمعہ کے روزمنعقدہ سائنس کانفرنس سے خطاب کے دوران آندھرا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ناگیشوار راؤ نے کیاہے

۔انہوں نے اپنے دعوی میں کہاکہ انگریزی ماہر طبیعیات چارلس ڈراؤن کی تھیوری برائے ارتقاء اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے بھگوان وشنو کے دس اوتار تھے۔

ایک پیشکش کے دوران راؤنے کہاکہ بھگوان رام ’ استر‘ اور ’ شاستر‘ کااستعمال کرتے تھے وہیں بھگوان وشنو سدرشن چکرا روانہ کرتے تھے جو اپنے ٹارگٹ کا تعقب کرتا اور اس کو مارنے کے بعد ان کے پاس واپس آجاتا تھا۔

یہظاہر کرتا ہے کہ سائنس او رتعقب کرکے وار کرنے والے میزائیل ہندوستان کے لئے نئے نہیں ہیں وائس چانسلر نے کہاکہ اور اس کو ہزاروں سال قبل پیش کیا گیا ہے۔راؤ نے کہاکہ رامائن کہتی ہے کہ روان کے پاس صرف پشپک ویمان نہیں تھا‘ مگر چوبیس قسم کے آڑان بھرنے والے سامان تھے جو مختلف سائزوں اور گنجاش کے تھے ۔ اس کے پاس لنکا میں کئی ائیرپورٹس تھے اور وہ مختلف وجوہات کے لئے ان کا استعمال کیاکرتاتھا

۔راؤنے کہاکہ جس طرح ڈراوین نے کہاکہ زندگی کی شروعات پانی سے ہوئی ہے تو مذکورہ لارڈ وشنو کا پہلا اوتار مچھلی بھی ہے۔

دوسرے اوتار کے لئے انہوں نے کچھوا کا قد وخال بنایا اور تیسرا اوتار تھا انسانی جسم ‘ چوتھا اوتا ر تھا نرسمہا اوتار انسانی جسم پر ببرکی سر۔پانچویں اوتار میں وہ ویمن کی صورت میں انسان دیکھائے گئے۔ انہوں نے سوال کیاکہ جس کس طرح گاندھاری کوراؤں کی ماں نے ایک سو بچے پیدا کئے۔

انہوں نے پوچھا کہ’’ ہر کوئی چونکا ہوا ہے اور کسی کویقین نہیں ہے‘ کس طرح گاندھاری نے ایک سو بچوں کوجنم دیا۔ کیایہ انسان کے لئے ممکن ہے؟اپنی پوری زندگی میں کیا ایک عورت سو بچے پید ا کرسکتی ہے‘‘۔انہوں نے کہاکہ ’’ مگر اب ہمیںیقین ہے کہ ہمارے پاس ٹسٹ ٹیوب بچے ہیں۔

پھر مہابھارت کہتی ہے‘ایک سو انڈوں کی کھاد بنائی گئی اور زمین میں ایک سو گڑھوں میں اس کو رکھا گیا۔ کیاوہ ٹسٹ ٹیوب کے بچے نہیں ہیں؟۔ کچھ ہزار سال قبل یہ ہوا ہے اور ہمارے ملک میں جب سے سائنس اور ٹکنالوجی موجود ہے‘‘۔