کتنی آوازیں دبائی جائیں گی ؟

   

یہ اعتراف تجھے شرمسار کردے گا
مری خموشی تری گفتگو پہ بھاری ہے
اپنی جانبدارانہ اور یکطرفہ کارروائیوں کو برقرار رکھتے ہوئے دہلی پولیس نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاسی اشاروں پر بلکہ سیاسی احکام پر مخصوص طبقات کو نشانہ بنانے کیلئے ہی کام کر رہی ہے صحافی محمد زبیر کو گرفتار کرلیا ۔ اس گرفتاری کے ذریعہ یہ واضح کردیا گیا ہے کہ حکومت کے خلاف رائے رکھنے والوں اور حقیقی صورتحال کو منظر عام پر لانے کی کوششیں کرنے والوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ تھما نہیں ہے بلکہ اس میں مزید تیزی آگئی ہے ۔ محمد زبیر کو چار سال پرانے ایک ٹوئیٹ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے ۔ یہ تک واضح نہیں تھا کہ ان کے خلاف ایف آئی آر کونسا ہے اور انہیں کوئی نوٹس تک نہیں دی گئی اور اچانک گرفتار کرتے ہوئے عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت سے انہیں پولیس تحویل میں دیدیا گیا ۔ آج دہلی پولیس کو مزید چار دن کیلئے محمد زبیر کی تحویل مل گئی ہے ۔ دہلی پولیس اور دوسری نفاذ قانون کی ایجنسیاں ایک طرح سے ایک نکاتی ایجنڈہ پر کام کر رہی ہیں ۔ محمد زبیر حقائق کا پتہ لگانے والی ایک ایجنسی کے شریک بانی ہیں اور انہوں نے 2018 میں ایک ٹوئیٹ کیا تھا ۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ان کے ٹوئیٹ سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس ٹوئیٹ پر گرفتاری کا دعوی کیا جا رہا ہے وہ در اصل ایک تصویر تھی جو ایک فلم کا حصہ تھی اورا س فلم کو سنسر بورڈ کی جانب سے منظوری بھی دی گئی تھی ۔ اس تصویر کو کئی افراد اور گوشوں کی جانب سے شئیر کرتے ہوئے ٹوئیٹر پر پیش کیا گیا تھا ۔ کسی کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور اچانک ہی محمد ذاکر کو کسی نوٹس کے بغیر گرفتار کرلیا گیا ۔اس سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ محمد زبیر کو محض اس لئے گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور وہ صحافی ہیں۔ صحافی بھی ایسے جو حقائق کا پتہ چلاتے ہوئے عوام میں پیش کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے ۔ آج ہندوستان بھر میں ایسے بے شمار سوشل میڈیا پوسٹ کئے جا رہے ہیں جن سے مذہبی دلآزاری ہو رہی ہے ۔ مذہبی ہستیوں کے خلاف گستاخیاں کی جا رہی ہیں۔ تاہم ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی یہ بلکہ انہیں بچانے کیلئے نت نئے بہانے پیش کئے جا رہے ہیں ۔
آج بی جے پی کی سرپرستی میں چلنے والے میڈیا سیل کی جانب سے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ کوئی اس پر کارروائی نہیں کرتا ۔ دوسرے مذاہب کے تعلق سے شدید اور رکیک ریمارکس اور تبصرے کئے جاتے ہیں۔ ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔ ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ہوئے زر خریداور تلوے چاٹنے والے اینکرس اپنی چیخ و پکار کے پروگراموس میں بکواس کرتے ہیں ۔ ان کے خلاف درجنوں ایف آئی آر درج کروائے جاتے ہیں لیکن ان کو گرفتار نہیں کیا جاتا ۔ ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ سرکاری ذمہ دار اور عہدیدار تک غلط اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں کوئی نوٹس تک نہیں دی جاتی ۔ ان سے کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہوتی اور نہ کوئی سوال کیا جاتا ہے ۔ ملک کی آزادی کے تعلق سے تبصرے کئے جاتے ہیں۔ ملک کی 2014 میں آزادی کی بات کرتے ہوئے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مجاہدین آزادی کی تضحیک کی جاتی ہے ۔ ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی تو دور کی بات ہے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ انہیں سکیوریٹی فراہم کی جاتی ہے ۔ یہ در اصل پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی کھلے عام متعصبانہ کارروائی ہے ۔ یہ ایجنسیاں ایسا لگتا ہے کہ سیاسی اور سرکاری اشاروں پر کام کر رہی ہیں۔ انہیں اپنے فرض اور دیانتداری سے کوئی سروکار نہیں رہ گیا ہے ۔ وہ سیاسی آقاوں سے تعلقات کو خوشگوار برقرار رکھنے کیلئے پیشہ ورانہ دیانت کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ محمد زبیر پہلے صحافی ہیں جنہیں نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اس سے قبل صدیق کپن کو جیل بھیج دیا گیا ۔ اترپردیش میں ایک صحافی کو محض اس لئے جیل بھیجا گیا کیونکہ اس نے دوپہر کے کھانے میں روٹی اور نمک دئے جانے کا پردہ فاش کیا تھا ۔ کئی جہد کاروں کو ان کی آواز دبانے کیلئے جیل بھیجا گیا ۔ سیول سوسائیٹی کے حقوق کی بات کرنے والوں کو نشانہ بنانے کا عمل اب بہت تیز ہوگیا ہے اور حکومت کسی بھی گوشے کو حق کیلئے آواز بلند کرنے کی اجازت دینے تیار نہیں ہے ۔ سیول سوسائیٹی اور دیانتدار صحافتی گوشوں کو اس روش کے خلاف آواز اٹھانے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے ورنہ کبھی بھی کسی کا بھی نمبر آسکتا ہے ۔