چیف منسٹر دہلی و عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال ایسا لگتا ہے کہ دھیرے دھیرے اپنے حقیقی چہرے کو آشکار کرتے جا رہے ہیں۔ دہلی کے عوام کو انہوں نے مفت سہولیات کی فراہمی کے ذریعہ مقبولیت حاصل کی ۔ کرپشن کے خلاف جدوجہد کا نعرہ دیا تھا ۔ بعد میں خود ان کے ارکان اسمبلی اور وزراء کے خلاف کرپشن کے الزامات عائد ہوئے ہیں حالانکہ ابھی یہ ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔ دہلی کی مقبول عام اسکیمات کی تشہیر کے ذریعہ انہوں نے پنجاب میں بھی اقتدار حاصل کیا ۔ پنجاب کے حالات کو ابھی تک قابو نہیں کیا جاسکا ہے۔ اب جبکہ عام آدمی پارٹی کو ہماچل پردیش اور گجرات میں بھی عوام کے درمیان لیجانے کی تیاریاں زور پکر چکی ہیں ایسے میں اروند کجریوال بھی نرم ہندوتوا اختیار کرنے لگے ہیں۔ انہیں یہ اندازہ ہونے لگا ہے کہ وہ گجرات یا ایسی ہی دوسری ریاستوں میں صرف مفت بجلی یا پانی یا اچھے اسکول اور دواخانہ کے نام پر ووٹ حاصل نہیں کرپائیں گے اس لئے انہوں نے بھی اپنے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرنا شروع کردیا ہے ۔ وہ بھی بی جے پی کے نقش قدم پر چلتے ہیں اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دینے لگے ہیں۔ وہ بہتر حکمرانی اور کرپشن کو ختم کرنے کا نعرہ دیتے ہوئے اب کرنسی نوٹوں ہندو دیوی دیوتاؤں کی تصاویر شامل کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ اس طرح انہوں نے گجرات میں ہندو توا جذبات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے ۔ اب انہوں نے ایک ایسا بیان دیا ہے جس سے ملک کے مسلمانوں میں تشویش پیدا ہونی واجبی ہے ۔ اروند کجریوال نے اعلان کیا کہ وہ بھی ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کے حامی ہیں۔ ابتداء میں کچھ گوشوں کی جانب سے اروند کجریوال کو آر ایس ایس اور بی جے پی کا ہم خیال قرار دیا گیا تو کئی گوشوں نے اس کی مخالفت کی تھی تاہم اب بتدریج کجریوال خود ایسا لگتا ہے کہ اپنے چہرے کا نقاب الٹنے لگے ہیں۔ انہیں یہ ضرورت محسوس ہونے لگی ہے کہ محض بجلی پانی یا اسکول اور دواخانہ کے نام پر وہ زیادہ دیرپا سیاست نہیں کرسکتے ۔ اس کیلئے انہیں بھی مذہبی جنون کا سہارا لینا پڑے گا اور کجریوال یہ سہارا لینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔
سارا ملک جانتا ہے کہ یکساں سیول کوڈ آر ایس ایس اور بی جے پی کا ایک دیرینہ منصوبہ ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے مسلمان اس کو قبول نہیں کرسکتے ۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے مقصد ہی سے آر ایس ایس اور بی جے پی کی جانب سے ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے بی جے پی کی جانب سے اس طرح کے نعروں اور مہم کے ذریعہ ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں۔ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی جاتی ہے اور سماج میں نفرت کو ہوا دی جاتی ہے ۔ ملک بھر میں اس نعرہ کے ذریعہ بی جے پی نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مسلمان اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ہی اپنی رائے کا اظہا بھی کیا ہے ۔ جہاں تک دستور کی بات ہے تو دستور میں ہر مذہب کا احترام کیا گیا ہے اور ہر مذہب کے ماننے والوں کے حقوق اور اختیارات کو بھی واضح کردیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی بات کرنا در اصل دستوری گنجائش سے بھی کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے اور اروند کجریوال بھی اب اس میدان میں کود پڑے ہیں۔ وہ بھی نرم ہندوتوا اختیار کرچکے ہیں اور اپنے چہرے کے نقاب الٹتے ہوئے ہندو مذہبی جذبات کے استحصال کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ کجریوال کا یہ امیج ان کیلئے فائدہ مند نہیں ہوگا اور ان کے اپنے حلقہ اثر میں مسلمان جو انہیں پسند کرتے آئے ہیں وہ بھی یکلخت ان سے دوری اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔
پہلے تو کرنسی نوٹوں پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی تصویر شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کجریوال نے ایک چال چلی تھی ۔ پھر انہوں نے اب یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی حمایت بھی کردی ہے۔ عین ممکن ہے کہ آئندہ وقتوں میں وہ بھی بی جے پی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یا پھر دوسری فرقہ پرست تنظیموں سے مثال لیتے ہوئے مسلمانوں کو حاشیہ پر کرنے کی مہم کا حصہ بن جائیں ۔ وہ اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے کسی بھی مسئلہ کا سہارا لینے سے گریز نہیں کریں گے ۔ تاہم انہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اس طرح کی سیاست دیرپا نہیں ہوتی اور انہیں بھی ملک کے عوام کسی بھی وقت دھول چٹانے کا تہئیہ کرسکتے ہیں۔