درد مندو ں کا خیال آپ کو کیونکر آیا
بات کیا ہوگئی سرکار کہاں آنکلے
اچانک ایک سیاسی تبدیلی میںچیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ 48 گھنٹوںمیںمستعفی ہوجائیں گے ۔ اروند کجریوال چھ ماہ تک دہلی شراب اسکام میں جیل میں رہ چکے ہیں۔ گذشتہ دنوں ہی انہیں سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت دیدی گئی ہے ۔ چھ ماہ کے دوران بی جے پی اور دوسری جماعتوں کی جانب سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ اروند کجریوال چیف منسٹر دہلی کی حیثیت سے مستعفی ہوجائیں ۔ تاہم کجریوال نے استعفی دینے سے انکار کردیا تھا ۔ عدالتوں نے بھی اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی ۔ اب جبکہ سپریم کورٹ سے ضمانت مل گئی ہے تاہم کجریوال پر ایک طرح سے تحدیدات عائد ہیں۔ ان کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ سیکریٹریٹ نہ جائیں۔ چیف منسٹر کے دفتر نہ جائیں۔ وہ فائیلوں پر بھی آزادانہ طور پر دستخط نہیں کرسکتے ۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کئی ذمہ داریاں ایسی ہیں جن کی تکمیل کجریوال نہیں کرسکتے ۔ سپریم کورٹ سے ضمانت کی جو شرائط عائد کی گئی ہیں ان کی وجہ سے کجریوال چیف منسٹر تو رہ سکتے ہیں لیکن ایک طرح سے ان کے اختیارات کم ہوگئے تھے ۔ کجریوال کو پہلے ہی شکایت تھی کہ ان کے اختیارات میں دہلی کے لیفٹننٹ گورنر غیر ضروری مداخلت کرتے ہوئے کام کاج میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ اب تو سپریم کورٹ کی جانب سے جو ہدایات دی گئی ہیں ان کے پیش نظر کجریوال نے کافی غور و خوض کے بعد استعفی کے منصوبہ کا اعلان کردیا ہے ۔ کجریوال کا یہ اعلان سیاسی حلقوں کیلئے حیرت انگیز کہا جا رہا ہے کیونکہ بی جے پی کے مسلسل مطالبات کے باوجود انہوں نے جیل میں رہتے ہوئے بھی اس عہدہ سے استعفی دینے سے انکار کردیا تھا ۔ اب ضمانت کے دو دن بعد ان کا یہ اعلان سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے ۔ ابھی عام آدمی پارٹی یا اروند کجریوال کی جانب سے کوئی وجوہات نہیں بتائی گئی ہیں لیکن یہ ضرور کہا جا رہا ہے کہ کجریوال کا یہ فیصلہ سیاسی اثرات کا حامل ہوسکتا ہے اور وہ عوام سے رجوع ہوتے ہوئے اپنے موقف کا اظہار کریں گے اور عوام کی رائے حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی ۔
کجریوال کا یہ فیصلہ اس اعتبار سے بھی سیاسی اہمیت کا حامل ہے کہ دہلی کی پڑوسی ریاست ہریانہ میں اسمبلی انتخابات چل رہے ہیں۔ کجریوال کی پارٹی ہریانہ میں ماضی میں بھی انتخابات میں حصہ لے چکی ہے ۔ حالانکہ اسے وہاں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے لیکن ہریانہ میں عام آدمی پارٹی کا سیاسی وجود ضرور ہے ۔ سپریم کورٹ سے ضمانت کے بعد اختیارات میں کمی کو ایک عوامی مسئلہ بناتے ہوئے کجریوال ہریانہ کے عوام سے رجوع ہوسکتے ہیں۔ اس کے ذریعہ وہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس کے علاوہ چیف منسٹر کی حیثیت مستعفی ہونے کے بعد کجریوال اور عام آدمی پارٹی کو امید ہے کہ وہ دہلی کے عوام کی ہمدردی بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے برقراری میں اب کجریوال کو کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا ہے کیونکہ وہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی سرکاری فائیلوں پر وہ دستخط کر پائیں گے ۔ اسی کو عوام کے درمیان پیش کرتے ہوئے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے اور خاص طور پر ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں وہ زیادہ سرگرمی سے اس مسئلہ کو پیش کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس کے اثرات کیا کچھ ہوسکتے ہیں وہ سیاسی حلقوں میں واضح ہے کیونکہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے مابین کوشش کے باوجود ہریانہ کیلئے مفاہمت نہیں ہوسکی ہے ۔ ہریانہ میں بی جے پی کیلئے صورتحال انتہائی مشکل قرار دی جا رہی ہے اور بی جے پی تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے ۔ بی جے پی کو داخلی خلفشار کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے ۔ تاہم کجریوال کی مہم سے بی جے پی اپنے طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کرسکتی ہے ۔
یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ کجریوال کے اس فیصلے کے فوری محرکات ہریانہ اسمبلی انتخابات ہی ہوسکتے ہیں اور اس کے بعد وہ دہلی کے تعلق سے بھی کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ دہلی میں وہ ہریانہ کے نتائج کو دیکھتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کے امکان پر غور کرسکتے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کے اس اعلان کے بعد سیاسی حلقوں میں جہاںحیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں اس کے اثرات پر بھی غور کیا جا رہا ہے ۔ کجریوال نے جو کارڈ کھیلا ہے اس کے دور رس اثرات ضرور ہوسکتے ہیں تاہم یہ اثرات کیا ہونگے یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے ۔