کجریوال کا فیصلہ اور بی جے پی

   

دیکھتا ہوں تیرگی کب تک ڈرائے گی مجھے
کل نئے سورج کو اپنے ساتھ لیکر آؤں گا
قومی دارالحکومت دہلی میں گدشتہ چار دن سے جاری سیاسی سرگرمیاںایسا لگتا ہے کہ اب مکمل ہوچکی ہیں۔ اروند کجریوال نے چیف منسٹر دہلی کی حیثیت سے اپنا استعفی پیش کردیا ہے ۔ وہ آج گورنر سے ملے اور اپنا استعفی انہوں نے پیش کردیا ۔ اس سے قبل اروند کجریوال نے دہلی کی وزیر آتشی کو اپنی جانشین بنادیا اور وہ دہلی کی آئندہ چیف منسٹر ہونگی ۔ دہلی میں سیاسی سرگرمیاں اور ہلچل چار دن قبل اس وقت شروع ہوئی تھی جب سپریم کورٹ نے چیف منسٹر اروند کجریوال کو دہلی شراب پالیسی اسکام میں ضمانت دی تھی اور وہ جیل سے رہا ہوئے تھے ۔ عدالت نے حالانکہ کجریوال کو ضمانت فراہم کردی تھی تاہم ان پر کئی طرح کی تحدیدات عائد کی گئی تھیں۔ ان میں یہ بھی شامل تھا کہ کجریوال نہ دہلی چیف منسٹر کے دفتر جاسکتے ہیں اور نہ ہی سیکریٹریٹ جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں فائیلوں پر دستخط کرنے سے بھی روک دیا گیا تھا ۔ اسی وقت سے سیاسی ہلچل کا آغاز ہوا تھا کیونکہ کجریوال سرکاری کام کاج انجام دئے بغیر اس عہدہ پر برقراری کے حامی نہیں تھے ۔ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے جیل سے رہائی کے فوری بعد اس سلسلہ میںمشاورت شروع کردی تھی اور یہ واضح کردیا تھا کہ وہ تحدیدات کے ساتھ سرکاری کام کاج انجام دینے کے قائل نہیں ہیں۔ حالانکہ پارٹی کے کئی قائدین نے انہیں مستعفی ہونے کے خلاف مشورہ بھی دیا تھا لیکن کجریوال نے آج بالآخر استعفی پیش کردیا اور انہوںنے آتشی کو آئندہ چیف منسٹر دہلی کی حیثیت سے منتخب کرلیا ۔ سیاسی قائدین کیلئے مقدمات کا سامنا ‘ اسکینڈلس کے الزامات ‘ جیل جانا اور پھر عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ہندوستان میںخاص طور پر یہ سیاسی میدان کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ اروند کجریوال نے تاہم اس مسئلہ کو ایک بار پھر عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور آئندہ دو ماہ میں دہلی میںدوبارہ اسمبلی انتخابات کروانے کی مانگ کی ہے ۔حالانکہ ابھی دہلی کابینہ نے دہلی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی باضابطہ سفارش نہیں کی ہے ۔ سمجھا جا رہا ہے کہ آتشی بحیثیت چیف منسٹر حلف لینے کے بعد کابینی اجلاس میں اسمبلی اس تعلق سے فیصلہ کرینگی ۔
کجریوال نے اس سارے مسئلہ کو ایک الگ انداز میں عوام سے پیش کرنے کے منصوبہ کے تحت یہ اقدامات کئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ انہیں عدالت سے تحدیدات کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم عدالت نے انہیں کابینی اجلاس منعقد کرنے یا پھر اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کرنے سے نہیں روکا تھا ۔ ان پر کچھ فائیلوں کو منظوری دینے یا سیکریٹریٹ یا چیف منسٹر کے دفتر جانے پر پابندی تھی ۔ کجریوال اگر واقعتا عوامی عدالت سے فیصلہ چاہتے ہیں تو وہ از خود بھی بحیثیت چیف منسٹر دہلی کابینہ کا اجلاس طلب کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش لیفٹننٹ گورنر کو روانہ کرسکتے تھے ۔ انہوں نے سارے مسئلہ کو ڈرامائی انداز میں عوام تک پہونچانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ہریانہ اسمبلی انتخابات میں بھی اس مسئلہ کو اپنے انداز میں پیش کرتے ہوئے ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرینگے ۔ کجریوال کا یہ منصوبہ کانگریس کیلئے نقصان کا باعث بنسکتا ہے ۔ ہریانہ میں بی جے پی حکومت کے خلاف رائے عامہ پائی جاتی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے یہاں پانچ حلقوں پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ اسمبلی انتخابات کیلئے اس کے حوصلے بلند ہیں۔ ریاست میں عوام کی رائے بی جے پی کے خلاف پائی جاتی ہے ۔ ایسے میںکانگریس اور عام آدمی پارٹی کو ہریانہ میںاتحاد کرنا چاہئے تھا جو نہیں کیا جاسکے ۔اگر کجریوال جارحانہ تیور کے ساتھ وہاں مہم چلاتے ہیں تو اس سے کانگریس کے انتخابی امکانات متاثر ہونے کے اندیشے لاحق ہو رہے ہیں ۔
ہریانہ کے انتخابات پر مرتب ہونے والے اثرات سے قطع نظر خود دہلی کیلئے بھی جس طرح کی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے اس کے منفی اثرات کا بھی کجریوال کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ بی جے پی پوری شدت کے ساتھ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے میں ایک بار پھر مصروف ہوگئی ہے ۔ دہلی کے ماحول کو پہلے بھی پراگندہ کیا گیا تھا ۔ فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دیتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہیں ہوئی ۔ اس بار بھی ایسا کیا جاسکتا ہے اور تبدیل شدہ حکمت عملی کے ساتھ عوامی تائید حاصل کرنے ہتھکنڈے اختیار کئے جاسکتے ہیں۔ اس تناظر میں کجریوال کا فیصلہ بی جے پی کیلئے فائدہ مند ہونے کے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں۔