کجریوال کی سیاست

   


عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال ایسا لگتا ہے کہ بنیادی سیاسی مسائل سے توجہ ہٹاتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں کی طرز کی سیاست کرنے لگے ہیں۔ ویسے تو وہ اب تک صرف انتخابی سیاست ہی کرتے رہے ہیں اور ترقیاتی اور بنیادی مسائل پر ان کی توجہ کم ہی رہی ہے ۔ انہوں نے اب تک صرف مفت بجلی یا مفت پانی ‘ مفت ادویات یا پھر مفت بس سفر کے نام پر ہی سیاست کی ہے اور دہلی کے بعد جس کسی ریاست کا رخ کررہے ہیں وہاں بھی وہ ترقیاتی اسکیمات سے زیادہ مفت بجلی پانی اور ادویات یا اسکولس کا ہی نعرہ لگا تے رہے ہیں۔ اسی نعرہ کی بنیاد پر انہوں نے پنجاب میں بھی اقتدار حاصل کیا ہے ۔ اب وہ ہماچل پردیش اور گجرات کیلئے تیاریاں زوروں پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گجرات میں انہوں نے مسلسل دورے کرتے ہوئے عوام کی نبض کو جاننے کی کوشش کی تھی ۔ وہاں بھی انہوں نے کچھ حربے اختیار کئے تھے اور آٹو ڈرائیور کے گھر پہونچ کر کھانا کھایا تھا ۔ تاہم بعد میں یہ حربے الٹے پڑ گئے جب آٹو ڈرائیور نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ستائش کردی اور اپنے سابقہ موقف سے انحراف کیا ۔ اب اروند کجریوال کو یہ احساس شائد ہونے لگا ہے کہ انہیں بھی اپنے چہرے کا نقاب الٹنے کا وقت آگیا ہے ۔ وہ بھی اب ہندو دیوی دیوتاؤں کی سیاست شروع کرنے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک نئی بحث چھیڑنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے ہندوستان میں کرنسی نوٹوں پر گاندھی جی کی تصویر کے علاوہ گنیش اور لکشمی کی تصاویر بھی شامل کرنے کی تجویز پیش کی ہے ۔ ان کی یہ تجویز در اصل ان کے چھپے ہوئے ہندوتوا کو ظاہر کرنے کی سمت پہلا قدم ہوسکتی ہے ۔ ویسے بھی وہ جس طرح کی سیاست کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں بی جے پی کو زیادہ فائدہ ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ گجرات اور ہماچل پردیش میں ان کے کیڈر کی عدم موجودگی کے باوجود وہ جس طرح کی تشہیر کر رہے ہیں یا پھر بی جے پی انہیں جس طرح کی تشہیر کا حصہ بناتی جا رہی ہے اس سے شبہ ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی سے در پردہ اشتراک کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں ۔
ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے ۔ ملک کے دستور میں اس کی مکمل وضاحت موجود ہے ۔ کرنسی نوٹ سرکاری کرنسی ہے اور ملک کے سکیولر ازم کے مطابق یہاں کسی بھی مذہب کو دوسرے مذہب پر کوئی بالادستی نہیں ہے ۔ یہاں تمام مذاہب کا احترام ضرور کیا جاتا ہے لیکن حکومت کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح حکومت کے کسی بھی ادارے یا عمارت یا پھر کرنسی کو کسی ایک مذہب کی علامت تک مخصوص نہیں کیا جاسکتا ۔ اروند کجریوال اس طرح کی سیاست کے ذریعہ ایک طرح سے گجرات کے انتخاب کو ترقیاتی مسائل سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار اور مہنگائی کے مسئلہ سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کا جو عروج ہو رہا ہے اس پر وہ مباحث کو بھی روکنا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ دلتوں اور خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم کے تعلق سے کوئی مسئلہ پیش کیا جاسکے ۔ شائد وہ چاہتے ہیں کہ گجرات کے انتخابات کو ایک بار پھر فرقہ وارانہ نوعیت کے مسائل میں الجھا دیا جائے ۔ عوام کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلایا جائے اور بنیادی مسائل سے ان کی توجہ ہٹائی جائے ۔ یہی حکمت عملی بی جے پی کی ہوتی ہے ۔ اسی کو اختیار کرتے ہوئے بی جے پی نے کئی ریاستوں میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور فرقہ وارانہ نوعیت کے مسائل کو ہوا دینے کیلئے وہ جامع منصوبوں اور حکمت عملی کے ساتھ کام کرتی ہے ۔ فی الحال کجریوال بھی اسی طریقہ اور روش کو اختیار کرتے نظر آرہے ہیں جو افسوسناک کہا جاسکتا ہے ۔
اروند کجریوال نے جب دہلی میں حکومت بنائی تھی اور عوامی مقبولیت کے اقدامات کا آغاز کیا تھا تو ملک کے عوام نے اس کا استقبال کیا تھا ۔ اسی وجہ سے انہیں عوامی تائید حاصل ہوئی تھی ۔ دہلی میں حکومت کے اقدامات ایک محدود عوام کیلئے تھے ۔ مکمل ریاست کا انتظام الگ ہوتا ہے اور اس میں کامیابی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ محض عوام کو کچھ مفت سہولیات فراہم کرتے ہوئے ہمیشہ کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے اور یہ احساس کجریوال کو شائد ہوا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی ترجیحات کو تبدیل کردیا ہو اور مذہبی مسائل کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے سے گریز کرنا چاہئے ۔