سانحہ مسجدیکخانہ عنبرپیٹ کی شہادت کے تناظرمیں
مسجد کے لغوی معنی ہیں سجدہ کرنے کی جگہ،اوراصطلاح میں اس جگہ یا مقام کومسجدکہتے ہیں جواللہ سبحانہ کی عبادت وبندگی بجالانے کیلئے وقف ہوجہاں عبادت وبندگی کے ساتھ مسلم معاشرہ کے ساتھ انسانی معاشرہ کی بنیادی ،مادی اورروحانی ضرورتیں تکمیل پاتی ہیں۔ کرئہ ارض پربننے والی پہلی مسجد ’’بیت اللہ‘‘ہے جومکۃ المکرمہ میں واقع ہے جولوگوں کیلئے بنائی گئی ہے ،یہ بڑی بابرکت مسجدہے اور سب کیلئے سرچشمہ ہدایت ہے(آل عمران:۹۶)سب سے پہلے جس کی بنیادفرشتوں نے رکھی،پھرحضرت سیدناآدم علیہ السلام کواللہ سبحانہ نے زمین پراتارا،انہوں نے اس کی تعمیرفرمائی ،اس مقدس گھرکا اللہ سبحانہ کے حکم سے طواف کیا جانے لگااوراس کے اطراف نمازیں اداکی جانے لگیں۔طوفان نوح کے بعدیہ عمارت منہدم ہوگئی توسیدناابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے مبارک ہاتھوں پھرسے اس( بیت اللہ شریف) کی جدیدتعمیرعمل میں آئی،اس کی بازآبادکاری اورظاہری آلودگیوںاورمعنوی آلائشوں یعنی گردوغبار،میل وکچیل،بدنماداغ ودھبوں وغیرہ اورکفروشرک کی گندگیوں سے تطہیرکا سامان ہوا۔مسجدحرام کے بعداس سرزمین پر دوسری مسجدجوتعمیرہوئی ہے اس کا نام ’’مسجداقصی‘‘ہے جس کی تعمیر کی نسبت حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرف کی جاتی ہے،پھر حضرت دائوداورحضرت سلیمان علیہماالسلام کے ہاتھوں اس کی تجدید کا ذکرسب سے آخری آسمانی کتاب قرآن مجیداوردوسری آسمانی کتابوں میں ملتاہے۔حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے سوال کرنے پرآپﷺنے اس زمین پرتعمیرہونے والی پہلی مسجد۔مسجدحرام اوردوسری مسجداقصی ہے(بخاری:۴؍۱۱۷)مرکزتوحیدبیت اللہ جو کفروشرک کے مرکزمیں تبدیل کردیا گیا تھاجو ۳۶۰؍بتوں کی نجاست سے آلودہ ہوگیا تھا۔بیت اللہ کی تقدیس پامال کر دی گئی تھی، فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے ان کونکال پھینکا، پھرسے دوبارہ اس کی عظمت رفتہ بحال ہوگئی،مدینۃ المنورہ ہجرت کے موقع پرسب سے پہلی مسجد’’قباء‘‘ کی بستی میں تعمیر ہوئی ،پھرآپﷺمدینۃ المنورہ رونق افروزہوئے تومسجدنبوی کی تعمیرعمل میں آئی ان دونوں مساجدکااساسی حجر(سنگ بنیاد)آپﷺنے اپنے دست مبارک سے رکھا۔ مدینہ منورہ کی بستی میں حضور سیدعالمﷺ کے عہدمیمون میں مختلف قبائل کی آبادیوں میں بشمول مسجدنبوی۹؍مساجدکا ذکرملتاہے (کتاب المراسیل،لابی داود:۷۹)اسلام کے نیردرخشاں کی تابانیاں جیسے جیسے اطراف عالم میں پھیلتی گئیں مساجدتعمیرہوتی گئیں،اس وقت بھی دنیا کے ہرگوشے میں اسلامی طرزتعمیراورمسلم تہذیب وثقافت کی آئینہ دارکئی ایک شاہکارمساجدکرئہ ارض کی زینت بنی ہوئی ہیں جس کے مادی ومعنوی فوائدومنافع سے خلق خدامستفیض ہورہی ہے۔حدیث پاک میں واردہے’’سب سے برے مقام بازارہیں اورسب سے بہترین مقامات مساجدہیںکیونکہ مساجدکی نسبت رحمن سے ہے اوربازارشیاطین کے اڈے ہیں۔خیرالبقاع المساجد،وشرالبقاع الاسواق(رواہ ابن حبان:۴؍۴۷۶،والبیہقی فی السنن:۳؍۶۵)اللہ سبحانہ نے جس نورہدایت کا ذکرسورۃ النورآیت۳۵میں فرمایا ہے اس کے پانے کی جگہ دراصل مساجدہیں،جہاں صبح وشام اللہ سبحانہ کی حمدوثنااورتسبیح وتقدیس بیان کی جاتی ہے ،ان مقدس مقامات یعنی مساجدسے محبت رکھی جائے ،حدیث پاک میں واردہے جواللہ سبحانہ وتعالی سے محبت رکھنا چاہتاہے اس کوچاہئے وہ مجھ سے محبت کرے اورجومجھ سے محبت کرناچاہے اس کوچاہئے میرے صحابہ سے محبت رکھے اورجوصحابہ سے محبت رکھنا چاہے اس کوچاہئے قرآن پاک سے محبت رکھے اورجوقرآن مجید سے محبت رکھنا چاہے اس کوچاہئے مساجدسے محبت رکھے کیونکہ وہ اللہ سبحانہ کے گھر ہیں ،اللہ سبحانہ نے ان کی تعظیم کا حکم دیا ہے اوران میں برکت رکھی ہے ، مساجدبرکت کی جگہیں ہیں اوران میں رہنے والے بھی بابرکت ہیں،مساجد اللہ سبحانہ کی حفاظت میں ہیں اورمساجد میں رہنے والے بھی۔ مساجدمیں جو نمازوں کی ادائیگی میں مشغول رہتے ہیں اللہ سبحانہ ان کے سارے امورکے کفیل وکارسازہوجاتے ہیں، ان کے نہ ہونے والے کام بننے لگتے ہیں اوران کی حاجتیں پوری ہوجاتی ہیں،وہ مساجدمیں ہوتے ہیں اللہ سبحانہ ان کے پیچھے ان کے سارے امورکی حفاظت کے ذمہ داربن جاتے ہیں۔مساجدکی حرمت وتعظیم ہرطرح کی نجاسات وآلائشات سے تطہیر اور ان کی تعمیراوربازآبادکاری وغیرہ جیسے مساجدکے مقاصدکواللہ سبحانہ نے ’’ یَرفع‘‘ اور ’’ تُرفع‘‘کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے، اس میں بڑی جامعیت ہے ،مساجدکی نسبت سے جواحکام وآداب لازم ہیں ان سب کا اس میں احاطہ کردیا گیا ہے۔
ایک مرتبہ جائزراہ سے جب مسجدتعمیرہوجائے یعنی کسی ایک فردیا کئی افراد نے مسجدکیلئے زمین وقف کردی ہو خواہ وہ ان کی پہلے ہی سے مملوکہ ہویا خاص اس مقصدکیلئے انہوں نے خریدکی ہو،کسی جگہ مسجدکی ضرورت داعی ہواوراسی مقصدکیلئے کسی جماعت یا تنظیم نے چندہ وصول کرکے زمین خریدی ہو اوراس پرمسجد کی عمارت تعمیر نہ ہوئی ہویا تعمیرہو چکی ہو ہرحال میں وہ کسی ایک فردیا جماعت کی ملک باقی نہیں رہتی بلکہ وہ اللہ سبحانہ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ مسجدویران ہوجائے یا منہدم ہوجائے ہرصورت میں تاقیام قیامت وہ جگہ مسجدہی کیلئے متعین وموقوف رہتی ہے۔مسجدکی تقدیس وعظمت کی وجہ مسجدکا بالائی حصہ فضائوں میں آسمانوں تک اورمسجدکا زیریں حصہ تحت الثری تک مسجدہی کے حکم میں ہے،شرعی احکام کی روسے مسجد کے زیریں وبالائی حصے میں بھی مسجدہی کے احکام وآداب ملحوظ خاطررہیں گے ،اس کی خریدوفروخت کرنا،اس کورہن رکھنا یا کسی کوہبہ کرکے اس کا مالک بنانا،یاوراثت میں اس کوتقسیم کرنا شرعاً جائزنہیں، متولی کوبھی اس طرح کا کوئی حق حاصل نہیں کیونکہ متولی کا فریضہ یہ ہے کہ اوقافی جائیداوں کی حفاظت کرے اورمنشاء وقف کے مطابق ان کی دیکھ بھال کرے،خلاف منشاء وقف عمل کا متولی اگرمرتکب پایا جائے تووہ اب تولیت کے حق سے محروم ہوجائے گا،الغرض تولیت کے معنی نگرانی کے ہیں ،نگرانی میں مساجدواوقافی جائیداوں کی حفاظت منشاء وقف کی تکمیل اوراس کے انتظام وانصرام کی تمام ترذمہ داری متولی پررہے گی،تمام کتب فقہ وفتاوی کے’’ کتاب الوقف‘‘ میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
مسجدکی شہادت وہ بھی سیکولرفکرونظرکی حامی ’’ریاست تلنگانہ‘‘ کے مرکزی مقام حیدرآباد میں ہو ئی ہو قابل افسوس ہے،یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے کہ اس کونظراندازکردیا جائے،یہ ایسا عظیم اوردردناک سانحہ ہے جواسلام کی نسبت سے تمام ملی،سیاسی ، رفاہی اداروں کودعوت غوروفکردے رہاہے،اب بھی اگرخواب غفلت سے بیدارنہ ہوں توآئندہ اورمساجدکے تحفظ پرسوالیہ نشان لگ جائے گا۔اس اہم مسئلہ میں ملت اسلامیہ اوراس کے ذمہ داروں کا تساہل یا چشم پوشی کا خمیازہ اورکئی مساجدکی شہادت کی صورت میں ہم کوبھگتنا پڑے گا،اخباری اطلاعات کے مطابق کو ئی صاحب جومتولی ہونے کے دعویدارہیں نے بلدیہ سے سازباز کرکے اس کا معاوضہ حاصل کرلیا ہے ، یہ بھی اطلاع ہے کہ وہ اس وقت فرارہیں،اس سانحہ فاجعہ(اچانک)کے فوری بعدبہت سی مسلم تنظیموں کے درمیان ہلچل پیداہوئی ،حکومت کے ذمہ داراداروں سے نمائندگی بھی کی گئی ،حکومت کے باوقارعہدیداروں نے دوبارہ اسی جگہ مسجدکی تعمیرکا وعدہ بھی کیا،کچھ شرپسندعناصرنے اپنی عادت کے مطابق فسادبھی مچایاجبکہ مذکورہ مسجدکی جگہ مسجدکی عمارت موجود ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے،چارسوسالہ اس قدیم مسجدکا ریکارڈ ’’اوقاف ‘‘کے ادارہ میں موجودہے،مسجدکا وجودسورج کے وجودکی طرح ثابت ہے ،اس کا تعمیری وجودخوداس کے مسجدہونے کے ثبوت کیلئے کافی ہے۔پہلی بات تویہ کہ بلدیہ اورحکومت کے کارپردازوں کومسجدکی حرمت اورمسجدکی نسبت سے مسلم طبقہ کے جذبات واحساسات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ انہدامی کاروائی ہرگزنہیں کرنی چاہئے تھی ،دوسرے یہ کہ اگرکچھ غیرسیکولرذہن کے عہدیداروں یا مسجد کے تقدس وحرمت اورمسجدکی نسبت سے مسلم قوم کے نازک جذبات واحساسات کا ادراک نہ کرنے کی وجہ انہدامی کاروائی عمل میں آگئی تھی توانصاف کا تقاضہ یہی تھا کہ بلاکسی تاخیر وہاں حکومت اپنے خرچہ پرمسجدتعمیرکردیتی لیکن افسوس حکومت کے ذمہ دارعہدیداروں کی جانب سے جوبیانات جاری کئے گئے اس پرآج تک عمل آوری نہیں ہوسکی،اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ مسجدکی تعمیرکے بجائے مسجدیکخانہ کے مسئلہ کو قانونی موشگافیوں کی نذرکردیاگیا ہے، مفادعامہ کے عنوان سے ہائیکورٹ میں اب یہ مسئلہ زیردوراں ہے۔اس مسئلہ کے جائزہ کیلئے پانچ عہدیداروں پرمشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اب تک یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ مذکورہ کمیٹی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی ہے یا نہیں،ملک اورریاستوں میں امن عامہ کی برقراری بڑی اہمیت رکھتی ہے، ہمارے ملک میں مختلف مذاہب وادیان پرعمل کرنے والے رہتے ہیں،دستورنے ہرایک کواپنے مذہب پرعمل پیرارہتے ہوئے ایک باعزت شہری کی طرح اس ملک میں رہنے کا حق دیا ہے ، ہندوستانی آئین کے مطابق حکومت اورقانونی اداروںکافریضہ اولین ہے کہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کے احترام اوران کے تحفظ کویقینی بنایا جائے ۔