کرایہ کے مکان پر زکوٰۃ

   

سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا ایک رہائشی مکان کے علاوہ دیگر کرایہ کے مکانات ہیں ‘ جن کا کرایہ اور نفع زید کو وصول ہوتا ہے ۔ کیا ان کرایہ کے مکانات کی مالیت کا تخمینہ کرکے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ زید کے علم میں یہ بات ہے کہ رہائشی مکان پر زکوٰۃ نہیں، لیکن کرایہ کے مکانات کے متعلق زیدکو معلوم نہیں ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں اگرزید کے پاس سکونتی مکان کے علاوہ کرایہ کے مکانات ہوں، اور وہ محض کرایہ وصول کرنے کیلئے خریدے گئے ہیں‘ ان کی تجارت مقصود نہیں ہے تو وہ کتنی ہی زیادہ مالیت کے کیوں نہ ہوں ‘ان میں زکوٰۃ نہیں ۔ فتح العین جلداول ص ۳۷۳ کتاب الزکوٰۃ میں ہے: ’’ و لا فرق بین ما لو کانت للسکنی او لم تکن کأن کانت للاستغلال حتی لو اشتری دارا بقصد استغلال أجرتھا لا تجب علیہ الزکوٰۃ و ان کانت قیمتھا نصابا ۔شرح وقایہ جلداول ص ۲۶۸ کتاب الزکوٰۃ میں ہے : حتی لو کان لہ عبد لا لخدمۃ او دار للسکن و لم ینو التجارۃ لا تجب فیھما الزکوۃ و ان حال علیہ الحول ‘‘ ۔ فقط واﷲ أعلم