اب صرف اقتدار ہے موضوعِ سیاست
اقدار اور اصول کے اب دن گزر گئے
کرسی اہم ‘ نظریات پس پشت
مہاراشٹرا میں انتخابی نتائج کے بعد پندرہ دن کا وقت ہوچکا ہے لیکن ’ نظریاتی حلیف ‘ جماعتیں شیوسینا اور بی جے پی اب بھی حکومت سازی کیلئے تیار نہیں ہو پائی ہیں۔ دونوں جماعتیں چیف منسٹر کے عہدہ پر تکرار میں مصروف ہیں۔ شیوسینا چاہتی ہے کہ اسے بھی ایک معاہدہ کے تحت ڈھائی برس کیلئے چیف منسٹر کا عہدہ حاصل ہوجائے جبکہ بی جے پی ایک لمحہ کیلئے بھی یہ عہدہ کسی کیلئے چھوڑنے کو تیار نہیں ہے ۔ پندرہ دن سے مسلسل پس پردہ سرگرمیاں جاری ہیں لیکن ان کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے ۔ حالانکہ ریاست میں شیوسینا ۔ این سی پی ۔ کانگریس حکومت کی باتیں بھی ہو رہی ہیں لیکن ابھی تک اس پر بھی کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے ۔ جیسے جیسے وقت گذرتا جا رہا ہے ویسے ویسے شیوسینا ہو یا بی جے پی دونوں کے موقف میں مزید سختی آتی جا رہی ہے ۔ جب چیف منسٹر کا عہدہ بی جے پی کیلئے چھوڑنے سے اتفاق سے متعلق سوال ادھو ٹھاکرے سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہی کرنا ہوتا تو وہ پندرہ دن کیوں ضائع کرتے ؟ ۔ اب ریاست میں ایک طرح کی دستوری بحران والی صورتحال پیدا ہونے لگی ہے ۔ موجودہ اسمبلی کی معیاد 9 نومبر کو ختم ہونے والی ہے اور اگر اس وقت تک حکومت نہیں بن پائی تو پھر کیا ہوگا یہ سوال بھی کے ذہنوں میں گشت کر رہا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ درکار عددی طاقت نہ ہونے کے باوجود گورنر سب سے بڑی جماعت کو تشکیل حکومت کیلئے مدعو کرسکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ موجودہ اسمبلی کی معیاد سے قبل ہی نئی حکومت بننا ضروری نہیں ہے ۔ اس ساری صورتحال نے ایک بات تو بالکل ہی واضح کردی ہے کہ شیوسینا ہو یا بی جے پی ہو ان کے پاس صرف کرسی اور اقتدار کی اہمیت ہے ۔ وہ کرسی پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کرسکتے چاہے کرسی کیلئے انہیں اپنے نظریات کی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑ جائے ۔ انتخابات سے قبل دونوں جماعتوں نے کہا تھا کہ وہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے قریب ہیں اسی لئے انتخابات میں متحدہ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران بھی دونوں جماعتوں نے اپنے ’’ نظریاتی اتحاد ‘‘ کا خوب ڈھنڈھورا پیٹا تھا ۔ اسی کے نام پر ووٹ حاصل کئے تھے ۔
اب جبکہ نتائج کو سامنے آئے پندرہ دن کا وقت گذر گیا ہے اور موجودہ اسمبلی کی معیاد بھی ختم ہونے کے قریب پہونچ گئی ہے لیکن دونوں جماعتیں اپنے ان نظریات کی بنیاد پر متحد ہونے اور کرسی بھی آپس میں بانٹنے کے تعلق سے تیار ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ دونوں جماعتوں کے اس موقف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے پاس نظریاتی اتحاد یا یکسانیت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ وہ صرف اقتدار حاصل کرنے کیلئے اس طرح سماعتوںکو خوش کرنے والی باتیں کہتی ہیں اور جب عمل کا وقت آتا ہے تو نظریات کو کہیں پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور کرسی اور اقتدار کیلئے اپنی حلیف جماعت ہی کو نظر انداز کرنے سے بھی وہ گریز نہیں کرتے ۔ مہاراشٹرا میں عوام نے شیوسینا ۔ بی جے پی اتحاد کے حق میں ووٹ دیا تھا اور کانگریس ۔ این سی پی کو اپوزیشن میں بیٹھے کی رائے دی تھی ۔ اس رائے کو سیاسی مفادات کیلئے جس طرح ادھیڑا جا رہا ہے وہ ساری دنیا کے سامنے مثال بن گیا ہے ۔ حکومت کرنے تو دونوں جماعتیں تیار ہیں لیکن وہ چاہتی ہیں کہ چیف منسٹر کی کرسی انہیں کو ملے ۔ ان کے سامنے عوام کا فیصلہ یا ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ صرف اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتی ہیں۔ اقتدار کیلئے اپنے لالچ کی تکمیل کا ذریعہ عوام کے ووٹ کو بنایا جا رہا ہے ۔
مہاراشٹرا میں اگر حکومت جلد تشکیل نہیں پاتی تو یہ ریاست کے عوام کے فیصلے کا مذاق ہوگا ۔ عوام نے جو فیصلہ دیا ہے اس کو ہر جماعت اگر اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنا چاہے گی تو یہ عوام کے فیصلے کا مذق ہی کہا جائیگا اور اس سے جمہوریت کی بنیادیں کھوکھلی ہونگی ۔ جو جماعتیں عوام کے ووٹ سے اور عوام ہی کی خدمت کیلئے اقتدار پر فائز ہونے کا دعوی کرتی ہیں وہی جماعتیں عوام کے فیصلے کا مذاق بنانے کا موجب بن رہی ہیں۔ یہ عوام کے ساتھ بھی کھلواڑ ہے اور اس سے ثبوت ملتا ہے کہ یہ جماعتیں عوام کو محض ہتھیلی میں جنت دکھانے اور سماعتوں کو خوش کرنے کی حد تک یقین رکھتی ہیں اور جب عوام کی تائید مل جاتی ہے تو اس تائید کو اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اور اپنی سیاسی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔