کرناٹک انتخابات اور بی جے پی

   

کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کے شیڈول کا اعلان اب کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے ۔ مئی 2023 سے قبل انتخابات کا عمل مکمل ہونے والا ہے ۔ بی جے پی نے کرناٹک کیلئے اپنی کمزور حالت کو دیکھتے ہوئے جو حکومت عملی بنائی ہے وہ گجرات اور شمالی ریاستوںمیںاختیار کی جانے والی حکمت عملی سے مختلف ہوسکتی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ بی جے پی کرناٹک میں کوئیخطرہ مول لینا نہیںچاہتی ۔ وہ تمام ارکان اسمبلی کو دوبارہ ٹکٹ دینے کا فیصلہ بھی کرچکی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی موجودہ رکن اسمبلی کو تبدیل نہیں کیا جائیگا اور نہ کسی کو ٹکٹ سے محروم کیا جائیگا ۔ جن دوسری پارٹیوں کے ارکان اسمبلی انحراف کرتے ہوئے بی جے پی میںشامل ہوئے ہیں ان کو بھی ان کے حلقوںسے ٹکٹ دیدیا جائیگا ۔ کرناٹک کی سیاسی صورتحال گجرات یا دوسری شمالی ریاستوںسے مختلف ہے ۔ کرناٹک میں کئی حلقہ جات اسمبلی ایسے ہیں جہاں انتخابات میںکامیابی امیدوار کے حلقہ اثر کی وجہ سے ہوتی ہے ۔پارٹی یا سینئر قائدین یا حکومت کی کارکردگی یہاںزیادہ معنی نہیںرکھتی ۔ کئی حلقہ جات میں ارکان اسمبلی اپنی افرادی اور پیسے کی قوت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی پارٹی میں رہیں اپنے حلقہ اثر کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے اس صورتحال کا احساس کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے ۔ کرناٹک میں کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کیلئے اپنا اقتدار بچانا مشکل ہوگا ۔ وہ کانگریس کو شکست دینے اور اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کر رہی ہے ۔ ریاست میں کسی مقای لیڈر کو عوامی چہرے کے طور پر پیش کرنے کی بجائے وزیر اعظم نریندرمودی کی شخصیت اور مقامی سطح پر امیدواروں کے حلقہ اثر کے ذریعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ گجرات اور دوسری ریاستوں میں بی جے پی نے کئی موجودہ ارکان اسمبلی کو ٹکٹ سے محروم کرتے ہوئے نئے چہروںکو متعارف کروایا تھا جس کے بعد کابینہ کی تشکیل میں بھی نئے چہروں کو موقع دیا گیا تھا ۔ یہ سب کچھ مخالف حکومت لہر سے بچنے کے حکمت عملی تھی جو گجرات اور دیگر ریاستوں میں کامیاب رہی تھی ۔
ڈسیپلن اور اخلاقیات کا درس دینے والی بی جے پی کرناٹک میں اپنے ان اصولوںکو پوری طرح سے خیرباد کہدینے کو تیار ہوگئی ہے ۔ پارٹی میں کئی ارکان اسمبلی کے خلافرشوت اور بدعنوانیوں کے الزامات ہیں۔ کچھ کی گرفتاریاں بھی ہوئی تھیں۔ کچھ وزراء کے خلاف بھی کمیشن حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔ ہر شعبہ میں کرپشن کے الزامات عام ہوگئے ہیں۔ ارکان اسمبلی کے خلاف عوامی ناراضگی کے بھی آثار ہیں اس کے باوجود بی جے پی نے اس بار اپنی حکمت عملی اور اپنے اصولوںکو خیرباد کہتے ہوئے موجودہ ارکان اسمبلی ہی کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ انتخابات کا شیڈول کسی بھی وقت جاری ہوسکتا ہے اور بی جے پی میں در پردہ تیاریاںشروع ہوگئی ہیں۔ ویسے تو دوسری جماعتیں کانگریس اور جے ڈی ایس بھی اپنے اپنے طور پر تیاریوںمیں جٹ گئی ہیں لیکن بی جے پی اقتدار بچانے کیلئے زیادہ ہی سرگرم دکھائی دے رہی ہے ۔ اس نے جو منصوبے تیار کئے ہیں وہ اس کی موقع پرستی کی مثال کہے جاسکتے ہیں۔ جن ارکان اسمبلی کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں ہیں اور جن کے خلاف کرپشن اور دیگر بدعنوانیوں کے الزامات ہیں ان کو ٹکٹ سے محروم کرنے اور نئے چہرے متعارف کروانے سے بی جے پی خوف محسوس کر رہی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی اصولوںاور اخَاقیات کی نہیں بلکہ موقع پرستی کی جماعت ہے اور وہ اقتدار برقرار رکھنے کیلئے کرپشن اور دوسرے الزامات کی بھی پرواہ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
جو اوپینین پول اب تک سامنے آئے ہیں ان کے بموجب بی جے پی اگر موجودہ چہروںکو تبدیل کرتی ہے تو اسے بغاوت کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے ۔ اب جبکہ موجودہ ارکان اسمبلی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو دوسرے دعویدار بھی اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرسکتے ہیں۔ اقتدار برقرار رکھنے کیلئے جو پالیسی اختیار کی جا رہی ہے وہ بی جے پی کیلئے الٹی مصیبت بھی بن سکتی ہے ۔ عوام میں یہ پیام تو ضرور جا رہا ہے کہ اقتدار کیلئے اخلاقیات اور اصولوںکی کوئی پرواہ نہیں ہے اور کرپشن اور بدعنوانیوں کے خلاف بومائی حکومت یا بی جے پی کوئی کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے اسے صرف اقتدار بچانے کی فکر لاحق ہے ۔