یاران بے بساط کہ ہر بازیٔ حیات
کھیلے بغیر ہار گئے مات ہوگئی
کانگریس کے اقتدار والی جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں اقتدار کی رسہ کشی ایسا لگتا ہے کہ فی الحال ٹل گئی ہے ۔ چیف منسٹر سدا رامیا اور ڈپٹی چیف منسٹر ڈی کے شیوکمار کے مابین کہا جا رہا تھا کہ اقتدار کی رسہ کشی چل رہی ہے ۔ ریاست میں کانگریس اقتدار کے ڈھائی سال پورے ہوچکے ہیں اور مزید ڈھائی سال کا عرصہ باقی رہ گیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ جس وقت انتخابات میں کانگریس نے کامیابی درج کی تھی اس وقت یہ فارمولا طئے پایا تھا کہ ابتدائی ڈھائی برس کیلئے سدارامیا ریاست کے چیف منسٹر ہونگے اور بعد کے ڈھائی سال کیلئے ڈی کے شیوکمار کو موقع دیا جائے گا ۔ حالانکہ پارٹی کی جانب سے اس تعلق سے کوئی واضح توثیق نہیں کی گئی ہے تاہم یہ تاثر عام تھا اور اس پر سبھی گوشوں کا یقین تھا ۔ گدشتہ چنددن سے ریاست میںچیف منسٹر اورڈپٹی چیف منسٹر کے مابین رسہ کشی چل رہی تھی ۔ ڈپٹی چیف منسٹر ڈی کے شیوکمار کے حامی ارکان اسمبلی اس مسئلہ پر نمائندگی کرنے کیلئے دہلی بھی گئے تھے ۔ در پردہ کیا کچھ سرگرمیاں جاری تھیںوہ کوئی بتا نہیںسکتا تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ریاست میں کانگریس کے حلقوں میںبے چینی پیدا ہوگئی تھی اور پارٹی ایک طرح سے دو حصوں میں بٹ گئی تھی ۔ سدارامیا یک گروپ کی قیادت کر رہے ہیں تو دوسرے گروپ کی قیادت ڈی کے شیوکمار کر کر رہے تھے ۔ جہاں تک کانگریس ہائی کمان کاسوال ہے تو اس معاملے میں ہائی کمان نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور بالآخر جب صورتحال قابو سے باہر ہوتی دکھائی دی تو دونوں ہی قائدین کو اختلافات کو بالائے طاق رکھنے اور اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت دی گئی ۔ پارٹی کی ہدایت ہی کا نتیجہ تھا کہ چیف منسٹر سدارامیا نے اپنے نائب شیوکمار کو آج ناشتہ پر مدعو کیا ۔ دونوں قائدین کی ملاقات ہوئی ۔ تبادلہ خیال کیا گیا اور پھر دونوں نے مشترکہ طور پر کہا کہ ان کے درمیان کسی طرح کے اختلافات نہیں ہیں۔ ان کیلئے پنچایت انتخابات ‘ بلدی انتخابات اور پھر 2028 کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کا نشانہ ہے اور اس کی تکمیل کیلئے دونوں ہی قائدین متحدہ طور پر جدوجہد کریں گے ۔
یہ دعوی ضرور کردیا گیا ہے کہ ریاست میں دونوں قائدین کے مابین کسی طرح کے اختلافات نہیں ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کوئی اشارہ نہیں دیا گیا کہ ریاست میں قیادت کی تبدیلی عمل میں لائی جائے گی ۔ جو اطلاعات ہیں ان سے تاہم یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ ڈی کے شیوکمار ریاست میں بہت جلد چیف منسٹر کی ذمہ داری سنبھال سکتے ہیں۔ پارٹی ذرائع کا یہ دعوی ہے کہ سدرامیا اور شیوکمار دونوں ہی کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ قیادت کے مسئلہ پر عوامی سطح پر کسی طرح کے تبصرے نہ کریں اور کام کاج کو بہتر بنانے پر توجہ دیں جس کے بعد بتدریج قیادت کی تبدیلی کے تعلق سے اقدامات کئے جائیں گے ۔جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق آئندہ سال مارچ کے اواخر یا پھر اپریل کے اوائل میں ریاست میں قیادت کی تبدیلی کی جاسکتی ہے اور عنان اقتدار ڈی کے شیوکمار کو سونپے جاسکتے ہیں جس کی وہ تمنا رکھتے ہیں۔ حالانکہ شیوکمار کا دعوی ہے کہ انہوں نے کبھی خود کو چیف منسٹر بنانے پر اصرار نہیں کیا تھا تاہم یہ حقیقت ہے کہ کرناٹک میں کانگریس کو اقتدار تک پہونچانے میں شیوکمار نے کافی جدوجہد کی تھی ۔ انہوں نے بی جے پی کے خلاف سرگرم جدوجہد کرتے ہوئے اسے اقتدار سے بیدخل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ سدارامیا بھی حالانکہ کانگریس کے قد آور قائدین میں شامل ہیں لیکن عوامی سطح پر شیوکمار نے پارٹی کی جدوجہد کو آگے بڑھایاتھا اور کئی گوشوں کا خیال تھا کہ انہیں اس محنت کا صلہ دیا جانا چاہئے اور چیف منسٹر کی ذمہ داری انہیں سونپی جانی چاہئے ۔ کانگریس نے بہتر منتظم کہے جانے والے سدرامیا پر انحصار کیا تھا ۔
سیاسی حلقوں کی قیاس آرائیوں کے مطابق چونکہ ڈی کے شیوکمار کے خلاف انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کا مقدمہ زیر دوران ہے اور سی بی آئی بھی ان کے خلاف مقدمات چلا رہی ہے ایسے میں کانگریس نے کوئی خطرہ مول نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ کانگریس کو یہ اندیشے لاحق تھے کہ اگر شیوکمار کو چیف منسٹر بنایا جائے تو مرکزی حکومت ایجنسیوں کا بیجا استعمال کرتے ہوئے شیوکمار کو بھی گرفتار کرسکتی ہے جس طرح اروند کجریوال اور ہیمنت سورین کو کیا گیا تھا ۔ تاہم اب یہ اشارے مل رہے ہیں کہ کانگریس نے شیوکمار کو ریاست کی ذمہ داری سونپنے کا من بنالیا ہے اور اس کے سامنے 2028 کے اسمبلی انتخابات ہیں جنہیں پارٹی بہرحال جیتنا چاہتی ہے ۔ کانگریس کے سیاسی مستقبل کیلئے جنوب میں کرناٹک اور تلنگانہ میں اقتدار ضروری ہے اور پارٹی کیرالا میں بھی اقتدار پر واپسی چاہتی ہے ۔ اس صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرناٹک میں جو امکانی بحران تھا کانگریس نے اسے فی الحال ٹال دیا ہے ۔
پاکستان اور عمران خان
پڑوسی ملک پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے تعلق سے کچھ افواہیں پیدا ہوگئی تھیں کہ انہیں جیل میں قتل کردیا گیا ہے ۔ افغان اور بلوچ میڈیا گھرانوںسے یہ افواہیں پیدا ہوئیں جنہیں بعد میں سرکاری طور پر مسترد کردیا گیا اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ عمران خان جیل میں بقید حیات ہیں اور انہیں فائیو اسٹار سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ عمران خان کیافراد خاندان اب بھی اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ عمران سے ملاقات کی ارکان خاندان کو بھی اجازت نہیں دی جا رہی ہے ۔ یہ صورتحال پاکستانی حکومت اورانتظامیہ کیلئے ایک درد سرسے کم نہیں ہے کہ تقریبا ڈھائی برس سے زیادہ عرصہ سے جیل میںرہنے کے باوجود ملک بھر میں عمران خان کی مقبولیت برقرار ہے اور لوگ آج بھی عمران کی رہائی کی امیدیں کر رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف جو مقدمات چلائے گئے ہیں اور جن کے تحت انہیں جیل بھیجا گیا ہے ان کو بھی عوام کی اکثریت فرضی ہی سمجھتی ہے ۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس تعلق سے افواہوں کا سلسلہ روکے اور افراد خاندان کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دی جائے تاکہ عوامی سطح پر جو بے چینی ہے اس کا خاتمہ کیا جاسکے ۔
