کرناٹک ‘تحفظات کا تنازعہ

   

یہ ڈگریاں سنبھال کے رکھ یادگار ہیں
دستِ ہنر سنوار کوئی کام دیکھ لے
پڑوسی ریاست کرناٹک میں انتخابی مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بی جے پی حکومت نے تحفظات کے تناسب میںکچھ الٹ پھیر کیا تھا ۔ کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ ان میں سب سے اہم فیصلہ یہ تھا کہ ریاست میںمسلمانوں کو جو چار فیصد کوٹہ دستیاب تھا اسے برخواست کردیا گیا اور اس کوٹہ کو ووکالیگا اور لنگایت برادری کے کچھ طبقات میں تقسیم کردیا تھا ۔ اس کے علاوہ تحفظات کے دوسرے زمروں میں بھی کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ بی جے پی کی ایس آر بومائی حکومت نے یہ فیصلہ در اصل مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور دوسرے طبقات کی تائید حاصل کرنے کے مقصد سے کیا تھا ۔ حکومت خود کو مخالف مسلمان ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہی ہے ۔ حکومت کے کئی فیصلے مسلمانوں کے مفادات کے مغائر ہوئے ہیں اور حکومت ان کا جواز بھی اپنے طور پر پیش کرتی رہی ہے ۔ تاہم کچھ فیصلے سوچ کر کچھ کئے جاتے ہیں اور اس کے نتائج کچھ اور سامنے آجاتے ہیں ۔ اب بھی کرناٹک کی بی جے پی حکومت کیلئے صورتحال مشکل ہوگئی ہے ۔ پارٹی کیلئے پہلے ہی سے ریاست میںانتخابی امکانات اچھے دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ریاست میں بی جے پی اپنے اقتدار کو بچانے میں شائد کامیاب نہیں ہو پائے گی اور کانگریس کے حق میں ریاست میںلہر پیدا ہوسکتی ہے ۔ ایسے میں بی جے پی نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان کے چار فیصد کوٹہ کو برخواست کردیا ۔ اس کے علاوہ بی جے پی حکومت نے درج فہرست ذاتوں کے بھی مختلف زمروں میں تحفظات کے تناسب میں کمی بیشی کی تھی جس کے بعد دیگر طبقات میں شدید ناراضگی پیدا ہوگئی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے سابق چیف منسٹر اور بی جے پی کے سینئر لیڈر بی ایس یدیورپا کی قیامگاہ واقع شیواموگا پر زبردست احتجاج کیا ۔ وہاں سنگباری تک کی نوبت آگئی اور پولیس کو برہم ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے طااقت کا استعمال بھی کرنا پڑا۔ یہ وہ صورتحال ہے جس کا شائد بی جے پی حکومت نے کوئی اندازہ نہیں کیا تھا اور وہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے آگے بڑھی تھی لیکن عوامی غضب کا اسے سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
ایس آر بومائی حکومت نے درج فہرست ذاتوں کو جو تحفظات ملازمتوں اور تعلیم میں حاصل تھے ان کے تناسب میں کمی بیشی اور تبدیلیاں کی ہیں۔ درج فہرست ذاتوں میں بھی دائیں اور بائیں گروپس شامل ہیں۔ان کی تقسیم بابو جگجیون رام اور ڈاکٹر امبیڈکر کو ماننے والوں کی بنیاد پر کی گئی ہے ۔ ان طبقات کو پہلے ہی سے تحفظات حاصل تھے ۔ اب بومائی حکومت نے اس تناسب میں تبدیلیاں کی ہیں جو بنجارہ ‘ کورچی ‘ کووی اور کرمی طبقات کیلئے قابل قبول نہیں ہیں۔ ان طبقات کا کہنا ہے کہ درج فہرست ذاتوں کو جو تحفظات پہلے سے حاصل تھے انہیں برقرا رکھا جانا چاہئے تھا ان میں جو اضافہ کیا گیا ہے اس کے نتیجہ میں دوسرے طبقات کی حق تلفی ہو رہی ہے ۔ ان طبقات سے تعلق رکھنے والے افرد نے آج یدیورپا کی قیامگاہ کے باہر پر تشدد احتجاج کیا ہے ۔ ان کے تیور بہت جارحانہ تھے ۔ وہ یہ واضح کر رہے تھے کہ وہ حکومت کی اس پالیسی مطمئن نہیں ہیں اور حکومت نے جو تحفظات کی تخصیص کی ہے اس میں ان طبقات کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے ۔ بعض گوشوںکا کہنا ہے کہ حکومت نے آبادی میں ان طبقات کے اثر کو دیکھتے ہوئے انتخابی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے یہ زمرہ بندی کی تھی اور تحفظات کی تخصیص میں بھی اسی پہلو کو پیش نظر رکھا گیا تھا تاہم چار طبقات اس پر برہم ہوکر سڑکوں پر اتر آئے ہیں جس سے بی جے پی کے منصوبوں کا اثر الٹا ہوسکتا ہے ۔ ان طبقات کی ناراضگی بھی بی جے پی کیلئے انتخابات میں مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہے ۔
ملک بھر میں اور ملک کی کئی ریاستوں میں تحفظات ایک سماجی ضرورت ہے ۔ جو طبقات ترقی کے معاملے میں دوسروںسے پیچھے ہیںانہیںبہتر مواقع فراہم کرنے کے مقصد سے یہ تحفظات دئے جاسکتے ہیں۔اس کا مقصد سماج میں عدم مساوات کو ختم کرنا اور ترقی کے ثمرات سے سبھی طبقات کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کرنا ہونا چاہئے تاہم ملک میں اور بیشتر ریاستوں میں تحفظات کو سیاسی نفع نقصان کا ذریعہ بنادیا گیا ہے ۔ انتخابی مفادات کو تحفظات سے مربوط کردیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں تحفظات کے بنیادی مقاصد فوت ہوچکے ہیں اور اس سے مختلف طبقات میں عدم اطمینان کی کیفیت بھی پیدا ہونے لگی ہے ۔