کرناٹک ‘ خوفزدہ کون ؟

   

جنوبی ریاست کرناٹک کی انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے اور اب اپنے اختتام کو پہونچنے والی ہے ۔ اختتامی مہم کو ختم ہونے اب محض چند گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔ ریاست میں کانگریس اور بی جے پی کی جانب سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے ۔ کانگریس ریاست میں اقتدار پر واپسی کرنا چاہتی ہے ۔ حالات اور کچھ سروے رپورٹس پارٹی کے حق میں بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ بی جے پی ابتداء سے ریاست میں کمزور دکھائی گئی ہے ۔ پارٹی کے ریاستی قائدین کیلئے حالات انتہائی مشکل ہوگئے تھے ۔ ایسے میں مرکزی قائدین کو ریاست میں ڈیرہ ڈالنا پر رہا ہے ۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا ‘ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ ‘ وزیر اعظم نریندر مودی ‘ چیف منسٹر یو پی آدتیہ ناتھ اور چیف منسٹر آسام ہیمنت بسوا سرما کے علاوہ مرکزی وزراء اور کئی قائدین ریاست میںانتخابی مہم کا ذمہ سنبھال چکے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ بھی کرناٹک کے عوام پر اثر انداز ہوتے دکھائی نہیں دئے ایسے میں بی جے پی نے اپنے ترپ کے پتے کے طور پر وزیر اعظم کو میدان میں اتارا ہے ۔و زیر اعظم ریاست میں مسلسل ریلیاں اور جلسے کرتے جا رہے ہیں۔ وہ انتخابی مہم کو تن تنہا سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ ریاست میںانتخابی مہم اختتام کو پہونچ رہی ہے بی جے پی کے حملے اور تنقیدیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ وزیر اعظم نے آج کرناٹک میںایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کو نشانہ بنایا اور یہ دعوی کیا کہ ریاست میں کانگریس کو شکست کا خوف ہے اس لئے اس نے اپنی سینئر لیڈر سونیا گاندھی کو بھی میدان میںاتار دیا ہے ۔ یہ در اصل کانگریس کا خوف نہیں بلکہ بی جے پی کو لاحق خوف کی عکاسی ہے کہ وہ کانگریس کی سینئر ترین لیڈر کے انتخابی مہم میں حصہ لینے پر پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ کانگریس نے جب اپنے اسٹار کمپینرس کی فہرست جاری کی تھی اس میں سونیا گاندھی کا نام شامل تھا ۔ کئی اور بھی سینئر قائدین انتخابی میدان میں ہیں۔ تاہم وزیرا عظم سونیا گاندھی کے انتخابی مہم میں حصہ لینے پر متفکر ہوگئے ہیں اور اس کا بالواسطہ حوالہ بھی دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
انتخابات کے دوران مہم میں حصہ لینے ہر پارٹی اپنے مقبول اور سینئر قائدین کو عوام میں پیش کرتی ہے ۔ ان کے ذریعہ عوامی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ سونیا گاندھی بھی اگر اپنی پارٹی کو انتخابی جیت اور کامیابی دلانے کیلئے میدان میں آئی ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ سونیا گاندھی ‘ اپنے فرزند راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں بھی کرناٹک میں شرکت کرچکی ہیں۔ کرناٹک کے انتخابی ماحول کو دیکھتے ہوئے اگر پارٹی نے سونیا گاندھی کو انتخابی مہم میں حصہ لینے تیار کیا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور نہ ہی کسی اور سیاسی جماعت کو اس پر فکرمند ہونے کی ضرورت ہے ۔ سونیا گاندھی کے انتخابی مہم میں حصہ لینے پر اعتراض در اصل بی جے پی کے خوف کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ بی جے پی کو امکانی شکست کا خوف ہی ہے کہ وزیر اعظم مسلسل صبح و شام کرناٹک کے دورے کر رہے ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں اپنی تمام سرکاری مصروفیات کو عملا بالائے طاقت رکھتے ہوئے وہ محض کرناٹک کے دوروں پر توجہ کئے ہوئے ہیں۔ انتخابی مہم اپنی پارٹی کیلئے چلانا ان کا حق ہے لیکن وہ ملک کے وزیر اعظم بھی ہیں۔ ان کی اپنی سرکاری ذمہ داریاں بھی ہیں ان پر بھی توجہ دی جانی چاہئے ۔ محض ایک ریاست کے انتخابات نہیں بلکہ سارے ملک کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر رکھنے کے باوجود اگر وزیر اعظم ریاست کیلئے مسلسل وقت نکال سکتے ہیں تو انہیںسونیا گاندھی کے کانگریس کی انتخابی مہم میں حصہ لینے اور ریلیاںکرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔
ایسا پہلی بار نہیںہوا ہے کہ سونیا گاندھی پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ بنی ہیں۔ وہ کئی ریاستوں میں پارٹی کی مہم چلا چکی ہیں۔ حالیہ عرصہ میں صحت کی وجہ سے وہ سرگرمیوں سے قدرے دور رہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ انتخابی مہم سے مستقل دور رہیں گی ۔ جہاں پارٹی کو ضرورت محسوس ہوئی انہوں نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ بی جے پی کے پاس در اصل کانگریس کو نشانہ بنانے کیلئے مسائل کی کمی دکھائی دے رہی ہے ۔ اس لئے اس طرح کے غیر اہم اور غیر ضروری مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اس سے بی جے پی کو جو خوف لاحق ہوسکتا ہے اس کا اظہار ہو رہا ہے اور کانگریس کے خوفزدہ ہونے کا دعوی کیا جا رہا ہے ۔