کرناٹک ‘ سابق بی جے پی حکومت میں کرپشن

   

صبح روشن ہے مگر پھر بھی یہ دل ہے بے چین
زیست کی راہ میں ہر موڑ پہ غم ملتے ہیں
جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں جاریہ سال مئی میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کانگریس نے یہاں اقتدار حاصل کیا تھا ۔ کانگریس نے انتخابی مہم کے دوران مسلسل بی جے پی حکومت پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزام عائد کئے تھے ۔ کرناٹک کی بی جے پی حکومت کو 40 فیصد کمیشن کی حکومت قرار دیا گیا تھا ۔ ایک نعرہ PayCm بھی جاری کیا گیا تھا ۔ ریاستی وزراء پر کرپشن اوربدعنوانیوں کے الزامات عائد کئے گئے تھے ۔ کئی واقعات کا حوالہ بھی دیا گیا تھا ۔ بی جے پی نے تاہم ان تمام الزامات کی تردید کی تھی ۔ کانگریس کی مسلسل مہم کے نتیجہ میں عوام نے بی جے پی کو شکست سے دوچار کردیا اور کانگریس کوتنہا اقتدار سونپا تھا ۔ اب جبکہ ریاست میں کانگریس حکومت کو چھ ماہ کا عرصہ بھی ہوچکا ہے ایسے میں خود بی جے پی کے سینئر لیڈر و رکن اسمبلی بسنا گوڑا پاٹل یتنال نے ایک الزام عائد کرتے ہوئے سنسنی پیدا کردی ہے ۔ خود بی جے پی رکن اسمبلی نے دعوی کیا کہ بی ایس یدیورپا جب چیف منسٹر تھے اس وقت کورونا وباء کے دور میں تقریبا 40 ہزار کروڑ کی خطیر رقم کا خرد برد ہوا ہے ۔ یہ الزام انتہائی سنگین ہے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب یدیورپا کے خلاف کرپشن کے الزامات عائد ہوئے ہیں۔ یدیورپا کی سابقہ معیاد کے دوران بھی ان پر خطیر رقومات کے خرد برد کا الزام عائد ہوا تھا اور ان ہی الزامات کی وجہ سے انہیں اپنے عہدہ سے استعفی دینا پڑا تھا ۔ بی جے پی اکثر و بیشتر دوسری جماعتوں پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزام عائد کرتی ہے اور خود کرپشن سے پاک ہونے کا دعوی کرتی ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ جہاں کہیں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں کرپشن کے الزامات عام ہوگئے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی دور حکومت میں ویاپم اور دوسرے اسکامس سے سنسنی پیدا ہوگئی تھی ۔ اسی طرح چھتیس گڑھ میں جب رمن سنگھ حکومت تھی اس وقت بدعنوانیوں کے الزامات عام ہوگئے تھے ۔ ایسے الزامات کی بی جے پی ہمیشہ ہی تردید کرتی رہی ہے تاہم اب خود پارٹی رکن اسمبلی نے یہ سنسنی خیز انکشاف کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔
چونکہ یدیورپا پر اس سے پہلے بھی کرپشن کے الزامات لگ چکے ہیں۔ انہیں ان کی وجہ سے چیف منسٹر کا عہدہ بھی چھوڑنا پڑا تھا ۔ اور اب بھی خود پارٹی کے ہی سینئر قائد اور رکن اسمبلی نے ایسا الزام عائد کیا ہے تو پھر اس سارے معاملے کی جانچ ہونی چاہئے ۔ تحقیقات کروائی جانی چاہئے ۔ تمام حقائق کو منظر عام پر لانا چاہئے ۔ جو کچھ بھی حقائق پوشیدہ رکھے گئے ہیں ان سے پردہ اٹھایا جانا چاہئے ۔ یدیورپا ہوں یا کوئی اور سینئر قائد ہو ‘ بی جے پی سے تعلق ہو یا کسی اور پارٹی سے تعلق ہو اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے ۔ ہر ایک قانون کی نظر میں مساوی ہے اور کسی کو بھی عوامی رقومات کے خرد برد یا تغلب کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اگر اس طرح کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں تو انہیں نظر انداز بھی نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ان کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جانی چاہئیں۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں اورکسی طرح کے خرد برد کا پتہ چلتا ہے تو پھر اس پر کارروائی کی جانی چاہئے ۔ عوامی رقومات کے اس طرح کے تغلب کے سلسلہ کو روکا جانا چاہئے ۔ اس کے نتیجہ میں جو حقیقی استفادہ کنندگان ہیں اور عوام ہیں وہ اپنے حق سے محروم ہو رہے ہیں اور سیاسی قائدین یا ان سے ساز باز رکھنے والے عہدیدار ان رقومات سے عیش و عشرت کی زندگی گذارتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے عوامی حقوق پر ڈاکہ ہے اور اس کو روکنے کیلئے حکومت اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کو سرگرم رول ادا کرنا چاہئے ۔
بی جے پی نے ان الزامات پر ایک رسمی سا رد عمل ظاہر کیا ہے اور پارٹی کی امیج کو متاثر ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ پارٹی کو اپنی امیج کی فکر لاحق ہے لیکن اس قدر بھاری رقم کے خرد برد کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ پارٹی کو اس معاملہ کا سخت نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ کرپشن کو برداشت نہ کرنے کے دعووں کو درست اور حقیقی ظاہر کرنے کا یہ پارٹی کے پاس موقع ہے اور اسے اپنے قائدین کی دیرینہ وابستگی یا ان کے امیج کی پرواہ کئے بغیر عوامی زندگی میںشفافیت کے ساتھ کام کرنے اور کرپشن کو ختم کرنے کے جذبہ کے ساتھ آگے آنا چاہئے اور ان الزامات کی تحقیقات میں ہر ممکن تعاون کرنا چاہئے ۔