مسلم کوٹہ ختم کرنے کے متعلق حکومتی حکم نامے کے نفاذ کو سپریم کورٹ نے روک رکھا ہے۔
نئی دہلی۔انتہائی متنازعہ مسلئے پر یونین ہوم منسٹر امیت شاہ کے بیانات کے بعد انتخابات کے زیر اثر ریاست کرناٹک میں مسلم کوٹہ کی برخواستگی کے متعلق سیاسی بیانات پر سپریم کورٹ نے ناراضگی کا اظہار کیاہے۔
اس معاملے میں سیاسی بیانات کو ”نامناسب“ قراردیتے ہوئے جو زیر سماعت ہے عدالت عظمیٰ نے زوردیکر کہاکہ ”کچھ تقدس برقرار رکھنے کی ضرورت ہے“۔ مسلمانوں کے چار فیصد تحفظات سے دستبرداری اور ریاست میں سیاسی طور پر بااثر طبقات لنگایت اور وکا لیگا طبقات میں اسمبلی انتخابات سے عین قبل اس کی تقسیم جنوبی ریاست میں ایک گرما گرم موضوع بنا ہوا ہے۔
جسٹس کے ایم جوزف‘ بی وی ناگارتھنا‘ اور احسن الدین امان اللہ پر مشتمل ایک بنچ نے کہاکہ ”جب یہ معاملہ عدالت میں زیرالتواء ہے اور عدالت نے کرناٹک مسلم کوٹہ پر ایک ارڈر ہے‘ لہذاسیاسی بیانات اس پر نہیں ہونا چاہئے۔
یہ مناسب نہیں ہے۔ کچھ تقدس برقرار رہنا چاہئے“۔ ریاستی بی جے پی حکومت کی جانب سے ہٹائے گئے مسلم کوٹہ کوچیالنج کرنے والے درخواست گذار کی جانب سے وکیل دشنت دیوپیش ہوئے تھے‘ انہو ں نے کہاکہ ”ہردن ہوم منسٹر کرناٹک میں بیانات دے رہے ہیں مسلم کوٹہ کو برخواست کردیاجائے گا۔
کیوں ایسے بیانات دے رہے ہیں؟“۔حکومت کرناٹک کی جانب سے پیش ہونے والی سالیسٹر جنرل توشار مہتا نے کہاکہ وہ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ اس طرح کے بیانات دئے گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہاکہ مذہبی بنیاد پر کوٹہ کوتنقید کا نشانہ بنانا غلط نہیں ہے۔
جسٹس جوزف نے کہاکہ ”سالیسٹر جنرل اس طرح کے بیانات عدالت میں دیتے ہیں کو ئی مسئلہ نہیں ہے مگر کوئی عدالت کے باہر ایک زیرسماعت معاملے پر بات کرتا ہے تو وہ مناسب نہیں ہے۔
سال1971میں ایک مغربی بنگال کے لیڈر کو ایک راشن آرڈر جو عدالت میں زیر سماعت تھا اس کا دفاع میں پریس کانفرنس رکھنے پر توہین عدالت کے معاملے گرفتار کرلیاتھا“۔
مہتانے کہاکہ ”ہم عدالت کے جذبات کو سمجھتے ہیں او راس کا احترام کرتے ہیں“ اور بطور وکیل مزید کہاکہ ”میں یہ کہہ رہاہوں کہ مذہب کی بنیاد پر تحفظات غیرائینی ہیں“۔کوٹہ معاملے پر عدالت کے باہر دئے جانے والے بیانات پر جسٹس ناگارتھنا نے بھی ناراضگی کا اظہار کیاہے۔