کرناٹک میں بی جے پی کیلئے مسائل

   

بے خوف گھومتے ہیں گنہگار سب یہاں
الزام اپنے سر کوئی آنے نہیں دیا

جنوبی ہند میں بی جے پی کیلئے باب الداخلہ کہی جانے والی ریاست کرناٹک میں بی جے پی کیلئے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے حالانکہ سب کچھ ٹھیک ہے کا پیام دیتے ہوئے ان مسائل کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن جو صورتحال بتدریج پیدا ہونے لگی ہے وہ پارٹی کیلئے انتخابی امکانات پر اثر انداز ہوسکتی ہے ۔ حالانکہ بی جے پی الیکشن مینجمنٹ میںمہارت ضرور رکھتی ہے لیکن عوامی موڈ اور مسائل کا انتخابی نتائج پر لازمی اثر دکھائی دیتا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے تشہیر کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے ۔ ہر گوشے سے تشہیر کو حربہ بنایا جاتا ہے ۔ سوشیل میڈیا ہو یا پھر نیشنل میڈیا سبھی میں بی جے پی کی حد درجہ تشہیر کی جاتی ہے اور عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ لیکن اب جو صورتحال پیدا ہونے لگی ہے وہ بی جے پی کیلئے مسائل میںاضافہ کا سبب بن سکتی ہے ۔ چیف منسٹر بسوا راج بومائی کے تعلق سے پارٹی کے کئی قائدین میں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ سینئر ارکان اسمبلی نے بھی چیف منسٹر کے خلاف شکایت کی ہے ۔ سابق وزیر کے ایشورپا کابینہ میں اپنی دوبارہ شمولیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں اور اعلان کیا ہے جب تک انہیں وزیر نہیں بنایا جاتا وہ اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح کرناٹک کی سیاست پر خاصا اثر رکھنے والی لنگایت برادری بھی اب حکومت کے خلاف سڑکوں پر اترنے لگی ہے ۔ آج بیلگاوی میں جہاں اسمبلی اجلاس ہو رہا ہے خود بی جے پی کے رکن اسمبلی بسنا گوڑا پاٹل نے ایک لاکھ لنگایت افراد کے ساتھ احتجاج کیا اور ان کا اصرار تھا کہ لنگایت پنچم شالی برادری کو تحفظات فراہم کئے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پنچم شالی ہنگایت برادری لنگایت میں 60 فیصد ہونے کے باوجود سرکاری اسکیمات اور مراعات سے محروم ہے ۔ اسے تعلیم اور روزگار کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی تحفظات حاصل نہیں ہیں۔ ان کے اس احتجاج کو کرناٹک کے کئی آشرموں کے سربراہان کی تائید بھی حاصل ہے جو لنگایت برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
کرناٹک میں بی جے پی اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے اپنے طور پر ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے ۔ کئی طرح کے ہتھکنڈے اور حربے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ریاست میں حجاب تنازعہ کو ہوا دیتے ہوئے ساری ریاست کے ماحول کو پراگندہ کرنے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ اسی طرح اب حلال پر امتناع کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک خانگی ممبر بل اسمبلی میں پیش کیا جاچکا ہے ۔ ابھی اس پر اسمبلی میں مباحث نہیں ہوئے ہیں لیکن یہ بل بھی بی جے پی کے ہی ایک رکن اسمبلی نے پیش کیا ہے ۔ اس کے علاوہ کئی اور مسائل پر فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان کوششوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کا یہی حربہ اور ہتھکنڈہ ہے کہ انتخابات سے قبل ریاست میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلاتے ہوئے بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جائے تاکہ اسے سیاسی فائدہ ملتا رہے ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں بی جے پی نے یہی طریقہ کار اختیار کیا تھا ۔ بی جے پی کو پہلے بھی ریاست میں اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی اور اس نے پچھلے دروازے سے دوسری جماعتوں میں انحراف کرواتے ہوئے اقتدار حاصل کیا اور اقتدار کے بل بوتے پر اکثریت بنالی ۔ تاہم اسے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہی نظر آ رہا ہے اسی لئے اس طرح کے ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ ریاست میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔
بی جے پی کی اپنی ان کوششوں کے دوران اسے اب مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ خود بی جے پی حلقوں میں حکومت کے تعلق سے اطمینان نہیں ہے ۔ جہاں تک لنگایت برادری کے احتجاج کی بات ہے تو اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ لنگایت برادری کرناٹک کی سیاست اور وہاں حکومت سازی میں ایک سرگرم رول رکھتی ہے ۔ کئی مذہبی آشرم ہیں جو لنگایت طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تائید و مخالفت کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ ایسے میں جو صورتحال پیدا ہو رہی ہے وہ آئندہ وقت میں اور خاص طور پر اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کیلئے مسائل کا سبب ضرور بن سکتی ہے۔