یوں عوام اُٹھے ہیں عزم زندگی لے کر
موت جن کے آگے ہے آج سر جھکائی سی
پڑوسی ریاست کرناٹک میں حجاب کا مسئلہ ایسا لگتا ہے کہ اب ختم ہوجائے گا ۔ ریاست میں سابقہ بی جے پی حکومت نے تعلیمی اداروں میں حجاب کے استعمال پر پابندی عائد کردی تھی اور یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا ۔ اس کے نتیجہ میں سماج میں مختلف طبقات کے مابین حالات کو بگاڑنے کی کوششیں بھی ہوئی تھیں اور کچھ تنظیموں اور اداروں کی جانب سے اس مسئلہ کا استحصال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی ۔ تاہم کانگریس پارٹی نے ابتداء ہی سے تعلیمی اداروں یا دیگر مقامات پر حجاب کے استعمال پر پابندی کی مخالفت کی تھی ۔ جاریہ سال مئی میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں ریاست میںکانگریس نے اقتدار حاصل کیا تھا اور یہ امید کی جا رہی تھی کہ ریاست میں حجاب کے استعمال پر پابندی ختم کردی جائے گی ۔ چیف منسٹر کرناٹک سدارامیا نے حجاب کے گذشتہ روز ایک بیان دیتے ہوئے اپنی حکومت کے موقف کو واضح کردیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ حجاب پر پابندی ختم کی جائے گی ۔ ابھی حالانکہ اس سلسلہ میں باضابطہ احکام جاری نہیں کئے گئے ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ کسی کو کوئی بھی لباس استعمال کرنا ہے وہ کرسکتا ہے ۔ کسی کو جو کچھ بھی کھانا ہے وہ کھا سکتا ہے ۔ہر کوئی اپنی مرضی سے لباس اور غذا کا استعمال کرسکتا ہے ۔ یہی وہ اشارے ہیں جن سے یہ امید ہو رہی ہے کہ ریاست میں باضابطہ احکام جاری کرتے ہوئے حجاب کے استعمال پر عائد پابندی کو برخواست کردیا جائیگا ۔ حالانکہ ریاست میں کانگریس حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک اس پابندی پر باضابطہ عمل نہیں ہو رہا ہے اور سرکاری حکام کے موقف میںنرمی پیدا ہوگئی ہے لیکن چیف منسٹر کے بیان سے واضح ہوگیا ہے کہ اس پابندی کو احکام جاری کرتے ہوئے ختم بھی کردیا جائیگا ۔ جس طرح سے چیف منسٹر سدا رامیا نے کہا کہ ہر کسی کو اپنی پسند کے لباس کا استعمال اور غذا کا استعمال کرنے کا پورا حق حاصل ہے وہ اپنی مرضی اور پسند سے ایسا کرسکتا ہے تو یہ بات سبھی حکومتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کے لباس اور غذا کا تعین کرنا حکومتوں کا کام نہیں ہے ۔ حکومتوں کو اپنے کام کاج پر اور ریاست اور ملک کی ترقی پر اور عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود پر ساری توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔
بی جے پی ہمیشہ ہی اختلافی اور نزاعی نوعیت کے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔ حالانکہ بی جے پی کو شمالی ہند کی ہندی پٹی کی ریاستوں میں اس حکمت عملی کا شائد کوئی فائدہ حاصل بھی ہوا ہو لیکن جنوبی ہند میں بی جے پی کی کٹر ہندوتوا کی پالیسی اس کیلئے کارگر ثابت نہیں ہوسکی ہے ۔ بی جے پی نے جنوبی ہند میں محض کرناٹک میں اقتدار حاصل کیا تھا اور اسے وہ جنوبی ہند کے باب الداخلہ کے طور پر استعمال کر رہی تھی لیکن بی جے پی کیلئے یہ دروازہ بھی بند ہوگیا اور تلنگانہ میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی اپنی سیاسی اہمیت منوانے میں کامیاب نہیںہوسکی ہے ۔ جنوبی ہند کے عوام اپنے مسائل اور ترجیحات میں واضح موقف رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ووٹ کے ذریعہ یہ پیام دیدیا ہے کہ وہ مذہبی منافرت پھیلانے اور مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی کوششوں کو کامیاب ہونے نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے مسائل اور ان کی یکسوئی کی خواہش رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ عوام کو درپیش مسائل پر توجہ کرنا ہی حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یساسی جماعتیں اس کا دعوی بھی کرتی ہیں لیکن بی جے پی کی جہاں تک بات ہے تو وہ اقتدار حاصل ہونے پر اور اقتدار حاصل کرنے کیلئے دونوں ہی صورتوں میں ہندوتوا پالیسیوں پر عمل کرنا چاہتی ہے ۔ عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ مذہبی جذبات کے استحصال پر توجہ دی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں صورتحال کبھی بھی اس کے قابو میں نہیںرہی ہے ۔
کرناٹک کو بی جے پی نے ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن یہ تجربہ اس کیلئے ناکام ہی ثابت ہوا ہے ۔ اب جبکہ ریاست میں کانگریس حکومت ہے تو اسے حجاب پر پابندی کو ختم کرنے کیلئے عملا احکام جاری کرنے کی ضرورت ہے ۔چیف منسٹر سدارامیا نے آج بھی یہ اشارہ دیا ہے کہ حکومت عہدیداروں سے تبادلہ خیال کے بعد اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ کرے گی ۔ کانگریس اور ریاستی چیف منسٹر دونوں ہی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سماج کے کسی بھی طبقہ کیلئے غذائی اور لباس کی ترجیحات اس کی اپنی پسند کے مطابق ہونی چاہئیں۔ حکومتوں کو اس معاملے میں کوئی دخل اندازی نہیںکرنی چاہئے ۔ اس کیلئے کانگریس حکومت جتنا ممکن ہوسکے جلد فیصلہ کرے ۔ یہی ریاستی عوام اور حکومت کے حق میں بھی بہتر ہوسکتا ہے ۔
تلنگانہ ‘ سیاسی ٹکراؤ کا آغاز
تلنگانہ میں سیاسی ماحول گرم ہونے لگا ہے ۔ حالانکہ ریاست میں انتخابی عمل مکمل ہوئے اور نئی حکومت تشکیل پائے محض دو ہفتے پورے ہوئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں میں اور سیاسی ٹکراؤ کی کیفیت میں پھر اضافہ ہو رہا ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر تنقیدیں عروج پر پہونچ چکی تھیں۔ اب ایک بار پھر اسی طرح کی صورتحال پیدا ہونے لگی ہے ۔ بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے ۔ کانگریس حکومت نے سابقہ بی آر ایس حکومت کو نشانہ بنانے کیلئے ریاست کی معاشی اور برقی صورتحال پر وائیٹ پیپر جاری کرتے ہوئے عوام کے سامنے تمام حقائق کو پیش کرنے کا دعوی کیا ہے تو بی آر ایس بھی پیچھے رہنے کو تیار نہیں ہے ۔ بی آر ایس نے بھی ریاست میں عوام کو جو سہولیات فراہم کی گئی ہیں ان پر مشتمل وائیٹ پیپر جاری کرنے کی تیاری کر رہی ہے ۔ اس کیلئے پاور پوائنٹ پریزینٹیشن کی تیاری بھی پوری کرلی گئی ہے ۔ جہاں حکومت بی آر ایس کو نشانہ بنانے میںمصروف ہے تو بی آر ایس اس کا جواب دینے کی تیاری کر رہی ہے ۔ اس طرح آئندہ پارلیمانی انتخابات سے قبل ریاست میں سیاسی موسم ایک بار پھر سے گرم ہونے لگا ہے اور یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ٹکراؤ کی یہ کیفیت ابھی تھمنے والی نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ آئندہ پارلیمانی انتخابات تک جاری رہے گا ۔ عوام ساری سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔