بی جے پی اور اس کے قائدین نے ایسا لگتا ہے کہ کرناٹک کو جنوبی ہند میں اپنی تجربہ گاہ بنانے کا تہیہ کرلیا ہے ۔ کرناٹک میںچند ماہ قبل حجاب پر امتناع کا مسئلہ انتہائی حساس بن گیا تھا اور اس پر کافی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی ۔ کالجس میں مسلم طالبات کو جو حجاب استعمال کر رہی تھیں نشانہ بنایا گیا ۔ انہیں کالجس اور تعلیمی اداروں میں داخلہ سے روکا گیا ۔ ٹیچرس کو بھی حجاب کے استعمال سے روکنے کے احکام جاری کئے گئے تھے اور اسی وقت سے حلال گوشت پر امتناع کا بھی دبا دبا مطالبہ کیا جا رہا تھا ۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی نے آئندہ سال ہونے والے کرناٹک اسمبلی انتخابات کی تیاری شروع کردی ہے اور اس کیلئے حلال پر امتناع کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی روی کمار نے اسمبلی خانگی ممبر بل پیش کرتے ہوئے حلال پر امتناع عائد کرنے کا مطالبہ کردیا ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ بھی کرناٹک میں ایک بڑا تنازعہ بن سکتا ہے ۔ بی جے پی جنوبی ہند میں اپنے قدم جمانے کی طویل عرصہ سے کوشش کرتی رہی ہے۔ اس کیلئے صرف کرناٹک میں کامیابی ملی تھی تاہم کسی اور ریاست میں بی جے پی کو زیادہ سیاسی تائید و حمایت نہیں مل پائی ۔ تلنگانہ میں بی جے پی کی جانب سے پوری شدت کے ساتھ مہم چلاتے ہوئے سیاسی قدم جمانے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ بی جے پی نے کرناٹک کو جنوبی ہند کا باب الداخلہ قرار دیا تھا ۔ اس کے باوجود آندھرا پردیش ‘ کیرالا اور ٹاملناڈو میں بی جے پی کو کوئی نمائندگی نہیں مل پائی ہے ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ جنوبی ہند میں بھی بی جے پی نے جارحانہ تیور اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ایسے مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے جن سے سماج میں دوریاں اور نفرتوں کو عروج حاصل ہو ۔ بی جے پی اسی حکمت عملی کے تحت جو اس نے شمالی ہند کی ریاستوں میں اختیار کی تھی اور سماج میں نفرت کو فروغ دیا تھا ‘ جنوبی ہند میں بھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ بی جے پی کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں رہ گئی ہے کہ اس کی اس طرح کی کوششوں کے نتیجہ میں سماج میں بے چینی پیدا ہوگی اور نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کی بجائے اس کو مزید بڑھاوا مل جائے گا ۔
حلال کا جہاں تک مسئلہ ہے تو یہ مسلمانوں کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اگر بی جے پی چاہتی ہے کہ کچھ لوگ حلال استعمال نہ کریں تو یہ عوام کا اپنا اختیار ہوسکتا ہے ۔ عوام چاہے حلال گوشت استعمال کریں یا نہ کریں لیکن کسی ایک طبقہ کیلئے دوسرے طبقہ کو نشانہ بنانا انتہائی مذموم حرکت ہوگی ۔ یہ مسلمانوں کی دلآزادی کی بجائے ان کے مذہبی احکام میں مداخلت کی کوشش ہوگی جو کسی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔ حلال کا جہاں تک مسئلہ ہے تو مسلمان کسی پر یہ مسلط نہیں کرتا کہ دوسرے طبقات بھی حلال ہی کا استعمال کریں۔ اسی طرح مسلمانوں کو حلال سے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی جانی چاہئے ۔ بی جے پی تاہم کسی بھی بات کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے اور وہ ہر قیمت پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے اورا پنی من مانی کرنے کا تہئیہ کرچکی ہے ۔ چند دن قبل راجیہ سبھا میں بی جے پی کے ایک رکن نے ملک بھر میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خانگی ممبر بل پیش کیا تھا ۔ اس پر بھی ایوان میں مباحث کروانے کی گنجائش فراہم کی گئی ۔ بی جے پی نے اسی سلسلہ کو اب جنوبی ہند میں بھی دراز کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کرناٹک میں حلال پر امتناع کا بل پیش کروایا ہے ۔ یہ کوشش سیاسی فائدہ اٹھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اس سے بی جے پی کے جارحانہ تیور کا پتہ چلتا ہے ۔ بی جے پی کے پاس ریاست میں اپنی حکومت کے کام کاج پیش کرتے ہوئے عوام کی تائید اور ان کے ووٹ دوبارہ حاصل کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیںرہ گئی ہے ۔
کرناٹک میں بی جے پی نے سیاسی انحراف کے ذریعہ چور دروازے سے اقتدار حاصل کیا ہوا ہے اور اسے یہ خدشات لاحق ہے کہ وہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں ریاست میں اقتدار سے محروم ہوجائے گی ۔ اس طرح جنوبی ہند میں قدم جمانے کے اس کے عزائم اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذہبی منافرت پھیلانے کے منصوبے پر پوری شدت کے ساتھ عمل کرنے لگی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے بی جے پی مذہبی منافرت پھیلانے سے گریز کرے اور سماج میں نفرتوں کو پروان چڑھانے کی بجائے اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرے ۔