کرناٹک میں کانگریس کی جیت

   

جنوبی ہند کو بی جے پی سے مکت کرواتے ہوئے کانگریس نے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے اور اقتدار پر واپسی کی ہے ۔ بی جے پی کو جس طرح سے کرناٹک کے عوام نے مسترد کیا ہے اور اس کے اقتدار کو ختم کیا ہے وہ پارٹی کیلئے نوشتہ دیوار سے کم نہیں ہے ۔ کرناٹک کے ماحول کو گذشتہ ایک دیڑھ سال کے عرصہ سے ہی پراگندہ کرنے اور نفرت و اشتعال کو ہوا دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ ایسے مسائل کو بھڑکایا گیا جن سے سماج میں دوریاں پیدا ہونے لگی تھیں اور نفرت شدت اختیار کرتی جا رہی تھی ۔ بی جے پی نے حلال ‘ حجاب ‘ ٹیپو سلطان ‘ یکساں سیول کوڈ جیسے مسائل پر عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی کوشش کی تھی تاہم کانگریس نے عوام سے تعلق رکھنے والے مسائل پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔ کانگریس نے پہلی مرتبہ بی جے پی کو انتخابی ماحول کو تیار کرنے کا موقع فراہم کئے بغیر عوامی مسائل کو توجہ کا مرکز بنادیا تھا اور اسے عوام کی تائید بھی حاصل ہوئی ۔ کانگریس نے بومائی حکومت کے کرپشن ‘ فرقہ پرستانہ سیاست اور ریاست کے عوام کو سہولیات فراہم کرنے جیسے مسائل پر انتخاب لڑا تھا اور اسے عوام نے اپنی تائید فراہم کرتے ہوئے اقتدار سونپ دیا ہے ۔ ریاست میں اقتدار بھی کانگریس کو اس طرح سے ملا ہے کہ اب وہاں انحراف کی حوصلہ افزائی کی گنجائش بھی باقی نہیں رکھی گئی ۔ جے ڈی ایس اور بی جے پی دونوں ہی پارٹیوں کی نشستوں کو کانگریس نے چھینا ہے اور اس نے اپنے بل پر اکثریت حاصل کرلی ہے ۔ کانگریس کی جیت کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جہاں کانگریس کے ووٹوں کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے وہیں اس کی جو نشستیں ہیں ان کی تعداد بی جے پی کی نشستوں سے دوگنی سے بھی زیادہ ہے ۔ جے ڈی ایس اور بی جے پی کو جتنی بھی نشستوں کا نقصان ہوا ہے ان تمام پر کانگریس نے قبضہ کرلیا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی عوامی مقبولیت ‘ وزیر داخلہ امیت شاہ کی چانکیہ پالیسیاں اور چیف منسٹر یو پی آدتیہ ناتھ اور چیف منسٹر آسام ہیمنت بسوا سرما کی اشتعال انگیز ہندوتوا پالیسیاں بھی بی جے پی کو کامیابی نہیں دلا سکیں۔ بی جے پی کیلئے یہی نوشتہ دیوار ہے اور اسے اپنی پالیسیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک کانگریس کی بات ہے تو اس نے گذشتہ نو سال میں پہلی مرتبہ کسی ریاست میں اس قدر منظم انداز میں انتخاب لڑا تھا ۔ ریاستی یونٹ نے جہاں اختلافات کو ختم کیا اور سبھی قائدین نے مل کر پارٹی کو مقدم سمجھا اور کامیابی دلانے کیلئے جدوجہد کی ہے وہ کانگریس کی دوسری ریاستی یونٹوں کیلئے بھی ایک مثال ہے ۔ کانگریس نے ریاستی عوام کے موڈ کو بھی سمجھنے کی کوشش کی اور ان کی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق عوام سے وعدے کئے ۔ ان کے مطابق انتخابی منشور تیار کیا ۔ عوام کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ۔ مفت بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ۔ نوجوانوں کیلئے بیروزگاری بھتہ کا اعلان کیا گیا ۔ کانگریس لیڈ ر راہول گاندھی نے ریاستی کابینہ کے پہلے اجلاس ہی میں ان تمام وعدوں کو پورا کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کیا تھا ۔ کانگریس نے پورے انتخابی موڈ میں یہاں مقابلہ کیا تھا اور اس نے کوئی کمی یا کسر نہیں چھوڑی جس کا اسے فائدہ ہوا اور کرناٹک کے عوام نے کانگریس پارٹی پر اپنے یقین اور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے جہاں ملک کی دوسری ریاستوں کے عوام کیلئے ایک پیام دیا ہے کہ بنیادی مسائل ہی اہمیت کے حامل ہیں اور مذہبی استحصال کی کوئی گنجائش نہیں ہے وہیں عوام کے اعتماد سے خود کانگریس کو بھی یہ بات سمجھنے کا موقع ملا ہے کہ متحدہ مقابلہ اور منظم حکمت عملی کے ساتھ انتخابی میدان میں اترا جائے تو کامیابی حاصل کرنا ناممکن نہیں رہ جاتا ۔ ضرور اس کیلئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے لیکن اس میں کامیابی کا یقین بھی زیادہ ہوتا ہے ۔
بی جے پی نے ریاست میں ماحول خراب کرنے کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی تھی وہ اسے کامیابی نہیں دلاسکی ۔ بی جے پی کو اس طرح کی حکمت عملی کا بنگال میں بھی نقصان ہوا تھا ۔ حالانکہ وہاں اس نے خاطر خواہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن یہ نقصان کمیونسٹ جماعتوں اور کانگریس کا ہوا تھا ترنمول کانگریس کی نشستوں میں اضافہ ہوا تھا ۔ اس کے برخلاف کرناٹک میں بی جے پی کو شدید نقصان ہوا ہے ۔ بجرنگ دل اور بجرنگ بلی جیسے نعروں کا بھی اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ حجاب اور حلال بھی بی جے پی کے کام نہیں آسکے ۔ بی جے پی کیلئے یہ نوشتہ دیوار ہے اور اسے اپنی پالیسیوں اور انتخابی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہئے کیونکہ ہر ریاست میں فرقہ وارانہ منافرت سے کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔
اپوزیشن اتحاد کی پیشرفت
کرناٹک کے اسمبلی انتخابی نتائج سے اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کو تقویت حاصل ہوئی ہے ۔ حالانکہ چند ماہ قبل ہی سے چیف منسٹر بہار نتیش کمار کی جانب سے ان کوششوں کا آغاز کردیا گیا تھا اور وہ کئی قائدین سے اب تک ملاقاتیں اور تبادلہ خیال کرچکے ہیں لیکن کرناٹک کے انتخابی نتائج کا کئی قائدین کو انتظار ضرور تھا ۔ کچھ جماعتیں اب بھی ایسی تھیں جو کانگریس کی عوامی مقبولیت کو پرکھنے اور جانچنے کی خواہاں تھیں اور انہیں کرناٹک کے انتخابی نتائج کے بعد کوئی فیصلہ کرنے میں سہولت ہوسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ کرناٹک کے جو نتائج رہے ہیں وہ کانگریس کی مثبت سوچ اور پالیسیوں کا نتیجہ بھی کہے جارہے ہیں ایسے میں ان نتائج کا دوسری ان ریاستوں پر بھی اثر ہوسکتا ہے جہاں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ دوسری ریاستوں میں بھی اگر کانگریس اپنے اقتدار کو بچانے میں کامیاب ہوتی ہے اور بی جے پی سے کسی ایک ریاست میں اقتدار چھیننے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس سے بھی اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کو مزید تقویت حاصل ہوگی بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے ان نتائج کے بعد اپوزیشن اتحاد تقریبا یقینی ہوجائے گا اور جو جماعتیں اب تک اس اتحاد کا حصہ بننے سے گریز کر رہی ہیں ان کی بھی اس اتحاد میں شمولیت کیلئے حوصلہ افزائی ہوگی ۔