کرناٹک میں اسمبلی انتخابات چل رہے ہیں۔ انتخابی مہم شدت اختیار کرچکی ہے اور ٓئندہ دنوں میں اس میںمزید شدت پیدا ہوگی ۔ ریاست میں بی جے پی اپنے اقتدار کو بچانے کوشاں ہے تو کانگریس ریاست میں اقتدار پر واپسی کی کوشش کر رہی ہے ۔ دونوں ہی جماعتوں کیلئے یہ انتخابات اہمیت کے حامل ہیں۔ بی جے پی اگر اپنے اقتدار کو بچانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اسے آئندہ چند مہینوں میں دوسری ریاستوں میںہونے والے انتخابات میں اخلاقی برتری حاصل ہوسکتی ہے اور اس کی بنیاد پ وہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں عوام سے رجوع ہونے میں زیادہ آسانی محسوس کرسکتی ہے ۔ اسی طرح کانگریس کیلئے بھی یہ انتخابات اہمیت کے حامل ہیں۔ ملک بھر میں کانگریس کی جو کمزور حالت ہے اس کو بدلنے کیلئے کانگریس پارٹی کی جدوجہد میں کرناٹک کی کامیابی سے کچھ مدد مل سکتی ہے ۔ چند مہینوں میںچھتیس گڑھ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی انتخابات ہونے والے ہیںاور کانگریس ان ریاستوں میں کرناٹک کے نتائج کو پیش کرتے ہوئے عوامی تائید حاصل کرسکتی ہے ۔ حالانکہ کرناٹک میں جنتادل سکیولر بھی ایک اہم جماعت ہے لیکن ایسا تاثر مل رہا ہے کہ ریاست میں اصل مقابلہ راست بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہی رہے گا ۔ جے ڈی ایس کی جو سیاسی اہمیت ہے اس کا اندازہ انتخابی نتائج کے بعد ہی لگایا جاسکتا ہے ۔ ایسے میں کانگریس پارٹی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ کرناٹک میں جیت حاصل کی جاسکے ۔ کانگریس نے کرناٹک کیلئے بھی ایک مخصوص حکمت عملی بنائی ہے ۔ وہ انتخابات کو علاقائی مسائل تک محدود رکھنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ مقامی مسائل اور حالات پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے ۔ قومی اہمیت کے حامل مسائل کو عوام کی توجہ بنانے کی بجائے علاقائی اور مقامی مسائل اور ریاستی حکومت کی ناکامیوں اور اس کے خلاف پائے جانے والے الزامات کو زیادہ توجہ کے ساتھ عوام میں پیش کرنے کی کوشش کی جا ارہی ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کانگریس کی اس حکمت عملی سے بی جے پی کی پریشانیوں میںاضافہ ہو رہا ہے اور کانگریس انتخابی مہم کو بھٹکنے کا موقع فراہم کرنے تیار نظر نہیں آتی ۔
کانگریس نے ریاستی حکومت پر عائد ہونے والے چالیس فیصد کمیشن کے مسئلہ کو زیادہ توجہ کے ساتھ پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ سینئر قائدین کی مبینہ ہتک کے مسئلہ کو بھی عوام سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کئی سینئر قائدین کو بی جے پی نے اس بار ٹکٹ سے محروم کردیا ہے اور کچھ قائدین کانگریس میںشامل ہوگئے ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر انتخابی مہم کو بھٹکانے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے ۔ چار فیصد مسلم کوٹہ کے مسئلہ سے بی جے پی نے سیاست کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں وہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے ۔ جہاں کانگریس انتخابی مہم کو مقامی اور علاقائی مسائل تک محدود کرنا چاہتی ہے وہیں بی جے پی قائدین کے پاس اپنی حکومت کے کوئی ایسے کام نہیں رہ گئے ہیں جن کی بنیاد پر وہ ووٹ مانگ سکے ۔ بی جے پی ہمیشہ کی طرح وزیر اعظم نریندر مودی کی شخصیت کی دہائی دیتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ کانگریس پارٹی بنگلورو کے آئی ٹی مرکز ہونے اور روزگار جیسے مسائل پر بات کر رہی ہے ۔ ریاستی حکومت کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے واضح کیا جا رہا ہے کہ انتخابات ریاستی عوام اور ریاست کے مسائل کی بنیاد پر لڑے جانے چاہئیں۔ بی جے پی عتیق احمد سے لے کر دیگر کئی ایسے مسائل اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے جن کا راست کرناٹک یا کرناٹک کے عوام سے اور ان کی بہتری یا ان کو درپیش مسائل کی یکسوئی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اب تک ریاست میںانتخابات کے تعلق سے کئی سروے بھی کئے جاچکے ہیں۔ہر سروے میںالگ الگ دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بی جے پی کو جس طرح امیدواروں کے انتخاب میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اسی طرح انتخابی مہم میں بھی بی جے پی کو مشکل پیش آ رہی ہے ۔ علاقائی مسائل کو پوری شدت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کانگریس نے ایک طرح سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کانگریس کی یہ حکمت عملی اب تک تو کامیاب نظر آتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکمت عملی انتخابی نتائج پر کس حد تک اثر انداز ہوگی اور کانگریس کو کس حد تک اس کا فائدہ ہوگا۔