کرناٹک ‘ چار فیصد مسلم کوٹہ برخواست

   

متعصب ذہنیت کے ساتھ کام کرنے کے الزامات کا سامنا کرنے والی بی جے پی کی کرناٹک حکومت نے ایک اور متنازعہ فیصلہ کرتے ہوئے انتخابات سے قبل ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ریاست میں ایس آر بومائی حکومت مسلسل اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے جس کے نتیجہ میں سماج میں فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ مل رہا ہے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے اور ماحول کو مثبت بنانے کی بجائے حکومت سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے ہی کام کرنے لگی ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سارے ملک میں مسلمانوں کی حالت انتہائی ابتر ہے ۔ سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی اور تعلیمی میدان میں مسلمان دوسرے ابنائے وطن سے کافی پیچھے ہیں۔ وہ ہر معاملہ میں کسمپرسی کا شکار ہیں۔ ان کی سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی اور تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کیلئے مشترکہ کاوشوں اورجدوجہد کی ضرورت ہے ۔ حکومتی سطح پر انہیں ممکنہ حد تک مدد فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ سماج میں دیگر ابنائے وطن کی طرح مساوی سہولیات حاصل کرسکیں۔ تاہم اس کے برخلاف حکومتیں مسلمانوں کو جو معمولی سے مواقع دستیاب ہیں وہ بھی ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ سماج کے ہر طبقہ کو تحفظات فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ قانونی اور دستوری گنجائش کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ عدالتوں کی مدد حاصل کی جاتی ہے تاکہ تحفظات کی حد میں کسی نہ کسی ذریعہ سے اضافہ کروایا جائے لیکن جہاں بات مسلمانوں کی آتی ہے تو انہیں ہر دستیاب موقع سے محروم کرنے کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ نت نئے بہانے تراشے جاتے ہیں ‘ نت نئی تاویلات پیش کی جاتی ہیں اور انہیں ہر موقع سے محروم کرتے ہوئے سماج میں مزید عدم مساوات کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ کرناٹک کی بومائی حکومت نے بھی اسی سمت میں قدم بڑھاتے ہوئے مسلمانوں کو جو چار فیصد کوٹہ دستیاب تھا اسے ختم کردیا ہے اور یہ کوٹہ دیگر دو طبقات میں تقسیم کردیا ہے جو پہلے ہی سے پانچ فیصد تحفظات سے استفادہ کر رہے تھے ۔ اس پانچ فیصد کو بڑھا کر سات فیصد کردیا گیا ہے ۔
بومائی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے چار فیصد کوٹہ کو چھین کر اسے ووکا لیگا اور لنگایت برادری میں تقسیم کردیا ہے ۔ ان دونوں کو پہلے ہی سے پانچ پانچ فیصد تحفظات حاصل تھے جو کہ اب بڑھ کر سات سات فیصد ہوجائیں گے ۔ جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے تو انہیں راست فائدہ پہونچانے کی بجائے مسلمانوں میں تحفظات کے اہل افراد کو معاشی پسماندہ طبقات میں شامل کردیا گیا ہے اور یہاںپہلے ہی سے برہمن ‘ مدلیار ‘ جین اور دوسرے طبقات شامل ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کو جو فائدہ مل سکتا تھا اس کے امکانات ممکنہ حد تک کم کردئے گئے ہیں۔ اگر کسی کو یہ تحفظات دستیاب ہونے کا امکان بھی ہو تو اسے پھر دوسرے طبقات کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا اور ان کے ساتھ تقابل میں نا انصافیوں کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس طرح سے مسلمانوں کو کرناٹک کی بومائی حکومت نے تحفظات کے جملہ حق سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے کہ مسلمانوں کو تحفظات کے ثمرات ملنے نہ پائیں۔ حکومت کا یہ فیصلہ یقینی طور پر سیاسی اغراض پر مبنی ہے اور اس کے ذریعہ انتخابات میںفائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ریاست کے ماحول کو پراگندہ کرنے میں بی جے پی اور اس کے قائدین کوئی کسر باقی نہیںر کھناچاہتے ۔ انہیں عوامی تائید حاصل کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ وہ عوامی مسائل پر تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیںہونگے اسی لئے وہ مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہیں اور اس کے ذریعہ وہ انتخابات میںکامیابی حاصل کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
جس طرح سے سارے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ماحول گرم کیا جا رہا ہے اس میں کرناٹک بھی سب سے آگے ہے ۔ یہاں اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے سیاست کی جا رہی ہے ۔ ایسے مسائل کو موضوع بحث بنایا جا رہا ہے جن کا عوام سے راست کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ یہ روایت صرف سیاسی فائدہ کیلئے شروع کی گئی ہے اور عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اپنے فائدہ کو یقینی بنایا جا رہاہے۔ کرناٹک کے مسلمانوں کو موجودہ حالات میں اپنی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ جذباتی استحصال کرنے والوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اپنے سماجی تشخص اور وجود کو یقینی بنانے کیلئے تیار ہونا چاہئے اور اپنے ووٹ کا انتہائی سمجھ بوجھ کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے ۔
راہول گاندھی کو اپوزیشن کی تائید
کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو ہتک عزت مقدمہ میں سزا اور پھر ان کی لوک سبھا کی رکنیت برخواست کردئے جانے کے بعد ایک طرح سے اپوزیشن کی صفوں میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے ۔ جس طرح بی جے پی نے کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا اس کو کئی علاقائی جماعتوں کی در پردہ تائید حاصل تھی تاہم اب اپوزیشن کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ کانگریس تو صرف ایک بہانہ تھا اصل کوشش تو ساری اپوزیشن جماعتوں کو ختم کرنے کی ہے ۔ دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال نے بھی یہی ریمارک کیا ہے کہ در اصل بی جے پی حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں اپوزیشن کا خاتمہ ہوجائے ۔ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جس طرح سے اپوزیشن نے راہول گاندھی کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کئی جماعتوں کو خود اپنے وجود کے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں۔ ایسے میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں میں سنجیدگی کے ساتھ اتحاد کے مسئلہ پر غور و خوض ہو ۔ اپوزیشن کو آپسی اتحاد کے ذریعہ انہیں کچلنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی جدوجہد کرنی ہوگی ۔ تنہا کوئی بھی جماعت اس جدوجہد میں کامیاب نہیں ہو پائے گی ۔