کرناٹک ‘ چیف منسٹر عہدہ کیلئے دوڑ

   

ٹوٹ جائے نہ کہیں پھر یہ بھرم اشکوں کا
دوست بھی لے کے عجب شکل و شباہت آئے
جنوبی ریاست کرناٹک میںانتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ تمام سیاسی جماعتیں اب تھک ہار کر نتائج کو قبول کرتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنے سے قبل آرام کے موڈ میں دکھائی دیتی ہیں۔ بی جے پی کیلئے ریاست میں شکست کو ہضم کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے کیونکہ ریاست سے بی جے پی کو کافی امیدیں وابستہ تھیں۔ اس نے اقتدار کو بچانے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کی تھی ۔ ملک کے وزیر اعظم خود اس انتخابی مہم میں ذمہ سنبھال کر میدان میں اترچکے تھے ۔ جلیل القدر عہدہ پر فائز رہنے کے باوجود انہوں نے سیاسی بیان بازیوں سے گریز نہیں کیا تاہم وہ بھی یہاں بے اثر ثابت ہوئے ۔ بی جے پی کیلئے سارے حالات اور شکست کی وجوہات کا جائزہ لینا اور کسی نتیجہ پرپہونچنا آسان نہیںہے ۔ تاہم کانگریس ریاست میں شاندار اور تاریخی کامیابی حاصل کرچکی ہے ۔ کانگریس کیلئے بھی ابھی صورتحال مستحکم نہیں ہوئی ہے ۔ جہاں دوسری جماعتوں کیلئے آرام کا موڈ ہیں وہیں کانگریس میں اب بھی چیف منسٹر کے انتخاب کیلئے گہما گہمی چل رہی ہے ۔کچھ امیدیں ہیں اور کچھ ناراضگیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ ریاست میں چیف منسٹری کیلئے دو دعویدار ہیں۔ پردیش کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار نے پارٹی کو نہ صرف مشکل اور بحران کے وقتوں میں سنبھالا ہے بلکہ انہوں نے پارٹی کیڈر اور قائدین کو متحد رکھنے میں بھی اہم رول ادا کیا ہے ۔ پارٹی کی قیادت کو انہوں نے موثر ڈھنگ سے سنبھالتے ہوئے کیڈر کے حوصلے بلند رکھے اور اسی کی وجہ سے پارٹی کو انتخابات میں بی جے پی جیسی طاقتور جماعت کے خلاف کامیابی حاصل کرنے میں مدد ملی ہے ۔ دوسری طرف سابق چیف منسٹر سدارامیا ہیں۔ وہ پہلے بھی چیف منسٹر رہ چکے ہیں اور عوامی سطح پر مقبولیت کا بھی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ دونوں کے درمیان توازن برقرار رکھنا کانگریس کیلئے آسان نہیں کہا جاسکتا ۔ پارٹی کسی کو خوش یا کسی کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی ۔ دنوں ہی اس عہدہ کی دوڑ میں شامل ہیں اور اپنے اپنے طور پر کوشش بھی کر رہے ہیں۔ سدا رامیا تو دہلی بھی پہونچ چکے ہیں جبکہ ڈی کے شیوکمار نے دہلی کا دورہ منسوخ کردیا ہے ۔
کانگریس نے پانچ سال قبل جس طرح سے مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کامیابی حاصل کی تھی اور جس طرح سے چیف منسٹرس کا انتخاب کیا گیا تھا اور وہاں بعد میں جو حالات پیدا ہوگئے تھے اور ناراضگیوں کی وجہ سے پارٹی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ مدھیہ پردیش میں تو پارٹی کو اقتدار سے ہی ہاتھ دھونا پڑا تھا ۔ راجستھان میں بمشکل تمام ہی اقتدار کو برقرار رکھا گیا ۔ تاہم اب راجستھان کی صورتحال پارٹی کیلئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے ۔ سچن پائلٹ اور چیف منسٹر اشوک گہلوٹ کے درمیان ناراضگیاں اور ایک دوسرے کے خلاف تنقیدیں اور تبصرے سر عام ہوگئے ہیں۔ دونوںہی قائدین سر عام تنقیدیں کرنے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ کرناٹک میں کامیابی نے کانگریس کے حوصلے بلند کئے ہیں اور ملک بھر میں ایک مثبت پیام دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں اگر کانگریس کرناٹک میں چیف منسٹر کے انتخاب میں کوئی جھول رکھتی ہے تو پھر اس سے صورتحال پارٹی کیلئے مشکل ہوسکتی ہے ۔ حالانکہ ریاست میں انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پارٹی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے فوری کوئی امکانات نہیں ہیں لیکن ناراض سرگرمیاں یا اختلافات پارٹی کیلئے کسی بھی صورتحال میں اچھے نہیں کہے جاسکتے ۔ اگر ناراضگیوں اور اختلافات والی صورتحال پیدا ہوگی تو پھر کانگریس کیلئے جیت کا جشن بھی پریشانیوں کا سبب بن سکتا ہے اور جو توانائی اور حوصلے کانگریس کارکنوں کے بلند ہونے لگے ہیں ان پر ایک بار پھر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
کانگریس کی مرکزی قیادت کے سامنے چیف منسٹر کے انتخاب کا جو مرحلہ ہے وہ آسان نہیں ہے ۔ مشکل صورتحال ضرور ہے لیکن سیاسی بصیرت اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے ۔ جس کسی کو بھی ریاست میں چیف منسٹر کاعہدہ دیا جائے دوسرے کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ۔ ناراضگی کی گنجائش کو فوری طور پر ختم کیا جانا چاہئے ۔ اختلافی صورتحال اگر طوالت اختیار کرتی ہے تو پارٹی کی کامیابی کا جشن پھیکا پڑسکتا ہے ۔ دونوں قائدین کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور ان کی عوامی مقبولیت بھی مسلمہ ہے ۔ پارٹی کی مرکزی قیادت کا فیصلہ انتہائی فراست و سمجھ بوجھ سے لیا جانا چاہئے ۔