کرناٹک ‘ کانگریس بحران کی یکسوئی

   

کرناٹک میں کانگریس کا بحران فی الحال حل ہوگیا ہے ۔ کانگریس پارٹی نے یہ واضح کردیا ہے کہ ریاست کی قیادت میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے اور اس پر کوئی غور نہیں ہو رہا ہے جیسا کہ قیاس کیا جا رہا تھا ۔ ریاست میں پردیش کانگریس کے صدر و ڈپٹی چیف منسٹر ڈی کے شیوکمار چیف منسٹری کے دعویدار ہیں۔ کرناٹک میں کانگریس کو اقتدار دلانے میں شیوکمار کے رول کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوں نے پارٹی کیلئے مرد بحران کا بھی رول ادا کیا ہے ۔ پڑوسی ریاستوں میں بھی انہوں نے کانگریس کے بحران کو اور اختلافات کو حل کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ شیوکمار کو نشانہ بنانے کیلئے مرکزی حکومت نے ان کے خلاف بھی مقدمات درج کئے تھے ۔ انہیں بھی نوٹسیں جاری کی گئی تھیں۔ ان سے بھی پوچھ تاچھ ہوئی ہے ۔ اس کے باوجود شیوکمار پارٹی میں ڈٹے رہے ہیں اور پارٹی کیلئے ان کی خدمات اور وابستگی پر کوئی سوال نہیں ہوسکتا ۔ جہاں تک سدارامیا کا سوال ہے تو وہ بھی کانگریس کے سینئر اور مقبول قائدین میں شمار کئے جا تے ہیں ۔ انہیں حکمرانی کا وسیع تجربہ ہے اور کانگریس ان پر انحصار کرتی ہے ۔ پارٹی کیلئے کرناٹک میں دونوں ہی قائدین ضروری ہیں۔ دونوں کے تجربہ اور کارکردگی سے پارٹی کو استحکام حاصل ہوتا ہے ۔ تاہم شیوکمار کے حامی انہیں چیف منسٹر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ خود شیوکمار بھی اس عہدہ کے دعویدار ہیں اور انہوں نے 2023 اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی دعویداری پیش کی تھی ۔ کانگریس نے تاہم سدارامیا پر اکتفاء کیا تھا اور اب بھی انہیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ شیوکمار نے بھی اس فیصلے کو قبول کرنے کا تاثر دیا ہے ۔ اس طرح فی الحال کیلئے کرناٹک کانگریس حکومت میں بحران کو ٹال دیا گیا ہے ۔ یہ اندیشے تاہم مسترد نہیں کئے جاسکتے کہ یہ مسئلہ مستقبل میں دوبارہ سر ابھار سکتا ہے ۔ اس معاملے میں کانگریس پارٹی کو بالکل واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور سدارامیا ہوں یا پھر ڈی کے شیوکمار ہوں ان کے رولس کے تعلق سے واضح ہدایات دینے کی ضرورت ہے تاکہ الجھن اور غلط فہمیوں کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے اور پارٹی کیلئے مشکلات پیش نہ آئیں۔
کانگریس کے سامنے کئی دوسرے مسائل بھی ہیں جن کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی سدارامیا کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ سدارامیا پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور آئندہ چند مہینوں میں بہار میں سمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بہار میں ذات پات کا بہت زیادہ اثر دکھائی دیتا ہے ۔ بہار کی سیاست میں ذات پات کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ کانگریس پارٹی بہار اسمبلی انتخابات سے قبل سدارامیا کو تبدیل کرنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھی کیونکہ بی جے پی بہار میں اس فیصلے کا استحصال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرسکتی تھی ۔ اس کے علاوہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کی ڈی کے شیوکمار کے خلاف تحقیقات اب بھی جاری ہیں اور انہیں مقدمات میں کلین چٹ نہیں ملی ہے ۔ اگر چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کیا جاتا تو بی جے پی اس سے بھی فائدہ اٹھاسکتی تھی اور وہ شیوکمار کے خلاف تحقیقات کو تیز کرتے ہوئے عہدہ پر ہی انہیں گرفتار کرسکتی تھی جیسا کہ ماضی میں جھارکھنڈ اور دہلی میں کیا گیا تھا ۔ یہ صورتحال بھی کانگریس کے حق میں مضر ہی ہوتی ۔ کانگریس نے ان سارے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے اور فی الحال تو یہ بحران ٹل گیا ہے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مسئلہ مستقبل میں دوبارہ موضوع بحث نہیں بنے گا ۔ اس طرح کے مسائل کانگریس پارٹی میں عام رہے ہیںاس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے مسائل پر واضح موقف اختیار کیا جائے اور مصلحت کے تحت فیصلے کرنے سے گریز کیا جائے تاکہ پارٹی قائدین میں بے چینی پیدا ہونے نہ پائے ۔
کانگریس کا داخلی سطح پر تنظیمی امور سے نمٹنے اور ان کی یکسوئی کرنے کا جو نظام ہے اس کو بھی مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو کچھ بھی فیصلے کئے جائیں ان پر پہلے تفصیلی غور و خوض اور ان کے اثرات کا جائزہ لے کر فیصلے کئے جانے چاہئیں اور جو فیصلے ہوجائیں ان پر مستحکم انداز میں ڈٹے رہنا چاہئے ۔ تمام اہم اور ذمہ دار قائدین کو ان فیصلوں کا تابع بنایا جان چاہئے اور پارٹی کی صفوں میں بے چینی پیدا کرنے والے کاموں سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ مسائل کی وقتی یکسوئی کی بجائے دیرپا حل نکالنے پر توجہ دی جانی چاہئے تاکہ پرٹی قائدین اور کارکنوں میں ایک طرح کا اطمینان برقرار رہے اور پارٹی پر منفی اثرات مرتب نہ ہونے پائیں۔