کرناٹک کانگریس میں سرگرمیاں

   

ہے بہارِ باغِ دنیا چند روز
دیکھ لو اس کا تماشا چند روز
جنوبی ہند میں کانگریس کے مضبوط اقتدار والی ریاست کرناٹک میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ارکان اسمبلی چیف منسٹر کی تبدیلی چاہتے ہیں اور اس کیلئے انہوں نے دہلی کا سفر بھی کیا اور وہاں پارٹی صدر ملکارجن کھرگے سے ملاقات بھی کی ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہے کہ کرناٹک کابینہ میں تبدیلی اور رد و بدل بھی کیا جاسکتا ہے اور ارکان اسمبلی اسی لئے دہلی گئے ہیںتاکہ اپنے لئے وزارت حاصل کی جاسکے ۔ اس کیلئے وہ پارٹی کے مرکزی قائدین سے نمائندگی کر رہے ہیں۔ ریاست میں ویسے تو ابتداء ہی سے کچھ حلقے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ڈپٹی چیف منسٹر ڈی کے شیوکمار کو وزارت اعلی کی کرسی پر فائز کیا جائے جبکہ موجودہ چیف منسٹر سد ارامیا ایک سے زائد مرتبہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ وزارت اعلی پر پانچ سالہ معیاد مکمل کریں گے ۔ انہوں نے قیادت میں تبدیلی کے امکانات کو کئی بار مستردکردیا ہے ۔ خود ڈی کے شیوکمار کا جہاںتک تعلق ہے تو انہوں نے بھی بالواسطہ انداز میںایک سے زائد مرتبہ کہا ہے کہ وہ موجودہ چیف منسٹر سدارامیا کے ساتھ ہیں۔ کرناٹک میں کانگریس کو اقتدار پر واپس لانے اور پارٹی کی شاندار کامیابی کو یقینی بنانے میںشیوکمار کے رول سے انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ بھی دعوی کیا جاتا ہے کہ ریاست کے ارکان اسمبلی کی اکثریت ڈی کے شیوکمار کی حامی ہے اس کے باوجود ہائی کمان نے وزارت اعلی کی ذمہ داری سدرامیا کو سونپی ہے ۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ ڈی کے شیوکمار کے خلاف جو مقدمات درج کئے گئے ہیں وہ ان کے چیف منسٹر بننے کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہیں کہ اگر وہ ریاست کے چیف منسٹر بنتے ہیں تو بی جے پی دہلی اور جھارکھنڈ کے چیف منسٹروں کی طرح انہیں بھی گرفتار کرنے کی کوشش کرسکتی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کانگریس کو عوامی سطح پر خفت کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اسی لئے پارٹی نے سدارامیا کو وزارت اعلی پر برقرار رکھنے کا ہی فیصلہ کیا ہے ۔ ارکان اسمبلی کی خواہشات اپنی جگہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ڈی کے شیوکمار کو چیف منسٹر بنایا جائے کیونکہ ان کے خیال میں آئندہ اسمبلی انتخابات میں شیوکمار ہی پارٹی کی قیادت کرسکتے ہیں۔
ارکان اسمبلی کی خواہشات اور پارٹی کی مجبوریاں اپنی جگہ ہیں تاہم جہاں تک ریاست کی سیاسی صورتحال کا سوال ہے تو یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی اس صورتحال سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے اور کر بھی رہی ہے ۔ بی جے پی ریاست میں اقتدار پر واپسی کے منصوبے بنا رہی ہے ۔ ریاست میں کانگریس ایک مستحکم حکومت چلا رہی ہے اور اسے ایوان میں اپنے بل پر واضح اکثریت بھی حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اس حکومت کو عدم استحکام کا شکار نہیں کرپائی ہے ۔ تاہم پارٹی اور حکومت میں داخلی سطح پر جو بے چینی ہے وہ پارٹی کے مفاد میں ہرگز نہیں کہی جاسکتی ۔ اس صورتحال کا پارٹی کو انتخابات کے دوران نقصان ہوسکتا ہے ۔ پارٹی کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ قومی سطح پر اپنی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے کرناٹک میں اقتدار کی برقراری ضروری ہے ۔ بی جے پی اگر کرناٹک میں اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوجاتی ہے تو قومی سطح پر کانگریس کیلئے مسائل میںاضافہ ہوسکتا ہے ۔بہار کی شکست کے بعد پہلے ہی پارٹی کیلئے حالات ابتر دکھائی دے رہے ہیں اور انڈیا اتحاد کی جماعتوںمیں بھی بے چینی پیدا ہونے لگی ہے ۔ اس صورتحال میں کرناٹک کے حالات کو قابو سے باہر ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ کانگریس اس صورتحال کی متحمل ہوسکتی ہے ۔ کانگریس کی مرکزی قیادت کیلئے ضروری ہے کہ کرناٹک کے حالات کو بہتر بنانے اور ان کو قابو میں رکھنے کیلئے اقدامات کرے ۔ پارٹی اور حکومت میں بے چینی کی کیفیت کو ختم کیا جائے ۔
ارکان اسمبلی ہوں یا وزراء ہوں یا پھر پارٹی کے دیگر قائدین ہوں سبھی کو اعتماد میں لیتے ہوئے واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کابینہ میں اگر رد و بدل ضروری ہے تو وہ بھی فوری کرلیا جانا چاہئے ۔ سیاسی مخالفین کو صورتحال کے استحصال کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے اور پارٹی کی صفوںمیں اتحاد اور استحکام پیدا کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ مرکزی قیادت کو کرناٹک کے معاملات میں خود شامل ہوتے ہوئے سبھی کیلئے اطمینان بخش صورتحال پیدا کرنے پر توجہ کرنی چاہئے ۔ زیادہ لاپرواہی بھی پارٹی کیلئے مضر اور نقصان کا باعث ہوسکتی ہے اور اس بات کو پارٹی مرکزی قیادت کو ذہن نشین رکھنا چاہئے ۔