کرپشن اور امیت شاہ کا جملہ!!

   

ساتھی نہ کوئی منزل، دیا ہے نہ کوئی محفل
چلا مجھے لیکے ائے دل، اکیلا کہاں
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ ان دونوں بی جے پی کیلئے جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ وہ دونوں ہی ریاستوں کے مسلسل دورے کرتے ہوئے عوام سے جلسوں اور ریلیوں کے ذریعہ خطاب کر رہے ہیں۔ ان سے نت نئے وعدے کئے جا رہے ہیں اور زیادہ تر مخالفین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ دوران تقاریر امیت شاہ ایسی باتیں بھی کہنے لگے ہیں جن پر انہیں خود سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جہاںوہ مخالفین پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے لگے ہیں وہیں انہوں نے اب جھارکھنڈ میں بنگلہ دیشی دراندازوں کا مسئلہ اٹھایا ہے ۔ انہوں نے اپنی تازہ تقریر میں کہا کہ جھارکھنڈ میں بی جے پی کو اقتدار مل جاتا ہے تو کرپٹ اور بدعنوان قائدین کو الٹا لٹکا دیا جائیگا ۔ ہوسکتا ہے امیت شاہ کیلئے یہ بھی ایک جملہ ہی ہو ۔ بعد میں وہ یہ کہنے لگ جائیں کہ دیکھئے یہ ایک جملہ ہے ۔ ایسے کوئی کسی کو الٹا نہیں لٹکاتا ۔ عوام بھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔ یہ جملے امیت شاہ نے 15 لاکھ روپئے عوام کے اکاؤنٹ میں جمع کرنے سے متعلق وزیر اعظم نریندر مودی کے وعدے کے تعلق سے کہے تھے ۔ اب امیت شاہ جھارکھنڈ میں جے ایم ایم اور دوسری جماعتوں کے قائدین کو کرپٹ اور بدعنوان قرار دینے لگے ہیں اور انہوں نے اب کہا ہے کہ کرپٹ افراد کو اگر الٹا لٹکانا ہے تو بی جے پی کو ووٹ دیا جانا چاہئے ۔ یہ بھی ایک انتخابی جملہ ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ ملک میں کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے والی تمام تر ایجنسیاں مرکزی حکومت کے تحت ہی کام کرتی ہیں۔ ان ایجنسیوں کی ذمہ داری اور نگرانی امیت شاہ کے ذمہ ہی ہے ۔ اگر واقعی کوئی کرپشن ہو رہا ہے کہ تو کسی ریاست میں اقتدار کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ تحقیقات کرواتے ہوئے کارروائی کی جاتی ہے ۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ریاستی چیف منسٹروں تک کو ای ڈی اور انکم ٹیکس محکمہ کے ذریعہ ہراساں کیا ۔ انہیں گرفتار کیا گیا اور جیل میں بند کیا گیا ۔ اب جھارکھنڈ میں بدعنوان قائدین کے خلاف کارروائی کیلئے ریاست میں اقتدار کی ضرورت کیوں آن پڑ رہی ہے ؟ ۔
ملک کے وزیر داخلہ اور بی جے پی لیڈر کی حیثیت سے امیت شاہ کو یہ جواب بھی دینا چاہئے کہ آیا اب تک کتنے کرپٹ اور بدعنوان قائدین اور لیڈرس کو الٹا لٹکایا گیا ہے ۔ انہیں یہ بھی وضاحت کرنی ہوگی کہ بی جے پی کے واشنگ مشین میں اب تک کتنے بدعنوان اور کرپٹ قائدین کو کلین چٹ دیدی گئی ہے ۔ سارا ملک جانتا ہے کہ مغربی بنگال میں شاردا اسکام کے تحت سوویندو ادھیکاری کے خلاف مقدمات درج کئے گئے تھے ۔ ان پر سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے ۔ جب انہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تو انہیں الٹا لٹکانا تو دور کی بات ہے ان مقدمات کا کہیں تذکرہ تک نہیں ہوتا ۔ مہاراشٹرا میں اب بی جے پی جس اجیت پوار کے ساتھ انتخابات لڑ رہی ہے اورجس اجیت پوار کو ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا تھا ان کے خلاف کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم نے 70 ہزار کروڑ کے کرپشن کا الزام عائد کیا تھا ۔ انہیں الٹا لٹکانے کی بجائے انہیں مہاراشٹرا کا ڈپٹی چیف منسٹر بنادیا گیا ۔ اسی طرح آندھرا پردیش میں بی جے پی سے اتحاد کرلینے پر چندرا بابو نائیڈو کے خلاف تحقیقات کو انہیں کلیٹ چٹ دیتے ہوئے بند کردیا گیا ۔ 2019 میںچندرا بابو نائیڈو کے اقتدار سے بیدخل ہونے سے قبل ان کے تین ارکان راجیہ سبھا نو نوٹسیں جاری کی گئی تھیںا ور تحقیقات شروع کی گئیں۔ تینوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی اور تمام مقدمات برفدان کی نذر ہوگئے ۔ آج ان مقدمات کا کہیں تذکرہ تک بھی سننے کو نہیں ملتا ۔
ملک میں بی جے پی زیر اقتدار کئی ریاستوں میں اسکامس منظر عام پر آئے ہیں لیکن ان کی تحقیقات تک نہیں کی گئیں کیونکہ ان میں بی جے پی قائدین کا نام آ رہا تھا ۔ مدھیہ پردیش کا ویاپم اسکام سب کو یاد رکھنا چاہئے ۔ کرناٹک میں بی ایس یدیورپا کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا اور انہیں بی جے پی نے دوبارہ چیف منسٹر بنادیا تھا ۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جنہیں وزیر داخلہ نے فراموش کردیا اور عوام کیلئے محض ایک جملہ کہہ دیا ۔ وزیر داخلہ ایک ذمہ دار عہدہ ہوتا ہے اور اس پر فائز رہتے ہوئے قول و فعل میں تضاد نہیں رکھا جانا چاہئے ۔ اگر واقعی کرپٹ قائدین کو الٹا لٹکانا ہے تو پھر سیاسی وابستگی کو خاطر میں نہیں لایا جانا چاہئے ۔