کسانوں و زراعت پر جامع پالیسی ضروری

   

دیکھے گا بھلا کون ہنر میری وفا کا
آئینہ لئے پھرتا ہوں اندھوں کے نگر میں
ہندوستان بنیادی طور پر ایسا ملک ہے جس کی معیشت اور اس کے استحکام میں زراعت کا شعبہ ایک مرکزی اور اہم رول ادا کرتا ہے ۔ کسان برادری ملک کی معیشت کو ترقی دینے میں اہم رول نبھاتی ہے اور جملہ گھریلو پیداوار کی شرح میں بھی بہتری کا ایک بڑا ذریعہ ہے ۔ اس کے باوجود ہمارے ملک کے کسان اکثر و بیشتر مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ انہیںکئی طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے ۔ کبھی کھاد کی وجہ سے انہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے تو کبھی تخم کی دستیابی ایک مسئلہ بن جاتی ہے ۔ کبھی موسم کی شدت کی وجہ سے ان کی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں تو کبھی اقل ترین امدادی قیمت نہ ملنے کی وجہ سے انہیں نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ انہیں اپنی پیداوار کی بنیادی کی قیمت بھی وصول نہیںہوتی اور ساری محنت رائیگاں چلی جاتی ہے ۔ کسان برادری مسلسل مطالبہ کر رہی ہے کہ اسے پیداوار پر اقل ترین امدادی قیمت فراہم کی جائے اور اسے ایک قانونی شکل دی جائے ۔ اس کیلئے مرکزی حکومت کو پارلیمنٹ میںقانون سازی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مرکزی حکومت نے کچھ وقت قبل تین متنازعہ زرعی قوانین کی تنسیخ کے وقت یہ تیقن دیا تھا کہ بہت جلد ایک قانون تیار کرتے ہوئے اقل ترین امدادی قیمت کا مسئلہ حل کیا جائیگا تاہم ابھی تک ایسا نہیں کیا گیا ۔ کسان برادری اب بھی اپنے مطالبات کیلئے احتجاج کرنے پر مجبور ہو رہی ہے اور ان کی سنوائی حکومت کے ایوانوں میں نہیںہو رہی ہے ۔ کسان ایک بار پھر احتجاج کا راہ اختیار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ حکومت اس سلسلہ میں سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی بجائے صرف وقت گذاری اور ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے ۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ تین متنازعہ زرعی قوانین کی تنسیخ اور انہیں واپس لینے کے فیصلے کے بعد کسانوں کے مسائل اور ان کے مطالبات کے تعلق سے حکومت سنجیدہ رویہ اختیار کرے گی اور ان کے جائز اور واجبی مطالبات کی تکمیل کیلئے اقدامات کئے جائیں گے تاہم ایسا نہیںہوا اور کسان بالآخر احتجاج کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہونے لگے ہیں۔ حکومت نے ایسا لگتا ہے کہ کسانوں اور ان کے واجبی مطالبات کے تعلق سے بھی آنکھیں موند لی ہیں اور کوئی اقدام کرنے تیار نظر نہیں آتی ۔
زرعی شعبہ ہندوستان کی معیشت میں جو اہم رول ادا کرتا ہے اس کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کو اناج کے معاملے میں خود مکتفی بنادیا گیا ہے ۔ یہاں کی زرعی پیداوار دوسرے ممالک کو روانہ کرتے ہوئے بیرونی زر مبادلہ بھی حاصل کیا جاتا ہے ۔ زرعی شعبہ سے راست اور بالواسطہ طور پر لاکھوں افراد کا روزگار بھی وابستہ ہے ۔ اس کے باوجود اس شعبہ کے تعلق سے لاپرواہی والا رویہ اختیار کیا جاتاہے جو انتہائی افسوسناک ہے ۔ اس اہمیت کے حامل شعبہ کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کسان اپنی زرعی سرگرمیوں کے ذریعہ پیداوار پر توجہ دے سکیں۔ ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کسانوں کو احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کی نوبت ہی آنے نہ پائے ۔ کئی شعبہ جات ایسے ہیں جن کے مسائل پر حکومت سنجیدگی سے اور وقت ضائع کئے بغیر کام کرتی ہے ۔ کئی شعبہ جات ایسے ہیں جنہیں بے تحاشہ مراعات دی جاتی ہیں۔ کارپوریٹ شعبہ کے مسائل پر ساری حکومت حرکت میں آجاتی ہے اور اس کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ضرورت سے زیادہ تیزی دکھائی جاتی ہے ۔ اس شعبہ کے لاکھوں کروڑ روپئے کے قرضہ جات کو معاف کردیا جاتاہے ۔ لاکھوںکروڑ روپئے قرض ڈوبنے کے باوجود بھی اس شعبہ کو مزید قرض فراہم کیا جاتاہے ۔ اراضیات دی جاتی ہیں اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ رویہ زرعی شعبہ اور کسانوں کے تعلق سے اختیار نہیں کیا جاتا جو افسوسناک ہے ۔ زرعی شعبہ اور کسانوں کیلئے بھی ایسی ہی سہولیات اور مراعات فراہم کئے جانے چاہئیں۔
ہندوستانی معیشت میں زرعی شعبہ کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت کو اس معاملے میں سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس شعبہ کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کی اہمیت کا جائزہ لیتے ہوئے زرعی شعبہ اور کسانوں کیلئے ایک جامع اور موثر حکمت عملی اور پالیسی بنائی جانی چاہئے ۔ کسانوں کیلئے ہر طرح کی سہولت کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔ کسان نمائندوں اور دوسرے شعبہ جات کی رائے حاصل کرتے ہوئے اس شعبہ کو مستحکم بنانے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ صرف اڈھاک اقدامات یا ٹال مٹول کی پالیسی سے اس شعبہ کے مسائل حل نہیں ہوسکتے اور جب تک کسانوں کے مسائل کو حل نہیں کیا جاتا اس وقت تک ملک کی حقیقی ترقی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا ۔ اس معاملے میں سیاسی مفادات اور عزائم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پوری سنجیدگی سے کام کیا جانا چاہئے ۔
چین میں نیا وائرس ‘ چوکسی ضروری
چین میں کورونا وائرس کے ٹھیک پانچ سال بعد اب ایک نیا وائرس پھیلنے لگا ہے جسے HMPV کا نام دیا گیا ہے ۔ سوشیل میڈیا سے ملنے والی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ چین میں کئی وائرس پھیلنے لگے ہیں جن میں انفلوئنزا اے HMPV نمونیا وغیرہ شامل ہیں تاہم HMPV کو خطرناک سمجھا جا رہا ہے اور مقامی سطح پر چین کے دواخانوں میں اس کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے ۔ اس کے علاوہ اموات کی شرح بھی بڑھنے لگی ہے ۔ کچھ سوشیل میڈیا ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ چینی حکام نے مقامی سطح پر ایمرجنسی کا بھی اعلان کیا ہے لیکن اس کی توثیق نہیں ہوسکی ہے ۔ جس طرح کی اطلاعات مل رہی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ چین کی صورتحال پر نظر رکھی جائے اور پوری چوکسی اختیار کی جائے تاکہ کسی طرح کے وائرس کو پھیلنے کا موقع نہ ملنے پائے ۔ عوامی صحت پر کسی طرح کا سمجھوتہ کئے بغیر تمام ترا حتیاطی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔