کسان احتجاج ‘ تعطل ختم کرنا ضروری

   

Ferty9 Clinic

سحر سے نور چھین لو ، گہر سے آب چھین لو
اُٹھو جہاں سے متاع بے حساب چھین لو

کسان احتجاج ‘ تعطل ختم کرنا ضروری
دہلی میں جاری کسان احتجاج نے دارالحکومت کو عملا ٹھپ کرکے رکھ دیا ہے ۔کسان برادری اپنے مطالبات پر اٹل ہے ۔ ان کا واجبی مطالبہ ہے کہ جو نئے زرعی قوانین مرکزی حکومت نے تیار کئے ہیں ان کو واپس لیا جائے کیونکہ اس سے کارپوریٹ طبقہ کو زرعی شعبہ میں اجارہ داری حاصل ہوجائے گی اور کسان مجبور ہوجائیگا ۔ کسان برادری کو اپنے مطالبات اور حالات کا بخوبی اندازہ ہے اورا سی وجہ سے مسائل کا شکار زرعی شعبہ کو بہتر بنانے کیلئے کسانوں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا بہت زیادہ ضروری ہے ۔مرکزی حکومت ایسا لگتا ہے کہ کارپوریٹس کو فائدہ پہونچانے کے ایجنڈہ کو کسی بھی قیمت پر واپس لینے تیار ہیں ہے اوروہ زرعی شعبہ کو بھی اڈانی اور امبانی کے پاس گروی رکھنے کا تہئیہ کرچکی ہے ۔ جس طرح سے بیشتر عوامی شعبہ کی کمپنیوں کو فروخت کردیا گیا اور ائر انڈیا اور ہندوستانی ریلویز کو بھی خانگی شعبہ کو سونپا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے زرعی شعبہ کے تعلق سے بھی حکومت کی نیت پر جو شکوک کئے جارہے ہیں وہ بے بنیاد نہیں ہیں۔ آج سپریم کورٹ نے اس مسئلہ پر سماعت کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ کسانوں کو اپنا احتجاج جاری رکھنے کا حق ہے اور مرکزی حکومت اگر چاہے تو جو نئے قوانین تیار کئے گئے ہیں ان کو معرض التواء میں رکھا جاسکتا ہے ۔ مودی حکومت کسانوں کے احتجاج کے باوجود اس مسئلہ پر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ۔ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے کسانوں کو جھانسہ دینے کی کوشش کرتی جا رہی ہے لیکن کسان اس جھانسہ میں آنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا واحد مطالبہ ہے کہ جو قوانین تیار کئے گئے ہیں انہیں واپس لیا جائے ۔ اس سے کم کسی بات کو کسان تسلیم کرنے تیار نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے آج اپنی رائے میں کہا ہے کہ کسان احتجاج جاری رکھ سکتے ہیں تاہم بات چیت بھی ہونی چاہئے ۔ مرکزی حکومت حالانکہ بات چیت کیلئے تیار رہنے کا ادعا کر رہی ہے لیکن وہ اپنے موقف میں کوئی لچک پیدا کرنے کو تیار نظر نہیں آتی اور کسان برادری بھی اپنے موقف پر اٹل ہے ۔ ایسے میں ایک تعطل پیدا ہوگیا ہے جو نہ کسانوں کے حق میں بہتر ہے اور نہ زرعی شعبہ کیلئے مناسب ہے ۔
ملک کے سارے عوام اور خاص طور پر زرعی شعبہ اور کسان برادری کو مطمئن کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے ۔ حکومت کسان تنظیموں میں پھوٹ ڈالنے کی کوششیں بھی کرچکی ہے ۔ انہیں بدنام کرنے کی کوشش بھی کی جاچکی ہے ۔ نفرت انگیز ریمارکس بھی کئی گوشوں سے کئے جاچکے ہیں۔ انہیں خالصتانی اور پاکستانی تک قرار دینے سے گریز نہیں کیا گیا اس کے باوجود کسان قائدین حکومت کے پروپگنڈہ کا شکار ہونے سے بچے ہوئے ہیں۔ حکومت کو یہ سارے ہتھکنڈے اختیار کرنے کی بجائے اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے کسان تنظیموں کے قائدین سے راست رابطہ کرنا چاہئے ۔ ان کے مفادات کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ ان کے جذبات اور احساسات کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے تعطل کوختم کرنے اور زرعی شعبہ کو مستحکم کرنے کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسانوں کے تعلق سے جو بدزبانیاں کی گئیں اور انہیں بدنام کرنے کے جو ریمارکس کئے گئے ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے حکومت کسانوں میں اعتماد بحال کرسکتی ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ جن عناصر نے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی تھی انہیں زرخرید اینکرس کی تائید و حمایت حاصل ہے اور انہوں نے بھی کسانوں کی ظاہری ہمدردی کا دکھاوا کرتے ہوئے ان کے احتجاج میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان کوششوں کو بھی حکومت کو اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف روکنا چاہئے بلکہ ختم کرنا چاہئے ۔
جہاں تک کسان تنظیموں کا سوال ہے انہوں نے ایک طویل جدوجہد کی تیاری کر رکھی ہے ۔ انہیں ملک بھر کے عوام سے ہمدردی بھی مل رہی ہے ۔ سارے ملک میں ان سے اظہار یگانگت کیا جا رہا ہے تاہم ایک طویل احتجاج ملک کی معیشت کیلئے اور پہلے ہی سے مسائل کا شکار جملہ گھریلو پیداوار کیلئے اچھا نہیں ہوسکتا ۔ اس احتجاج کو مثبت انداز میں ختم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے اور حکومت کو اپنے موقف میں لچک اور نرمی پیدا کرنی چاہئے ۔ اکثریت کے گھمنڈ میں کام کرنے کی بجائے زرعی شعبہ اور کسانوں کے استحکام کی فکر کرنی چاہئے ۔ کارپوریٹس کی اجارہ داری کو یقینی بنانے سے حکومت کو گریز کرنا چاہئے ۔