کسان احتجاج کو کے سی آر کی تائید

   

Ferty9 Clinic

کیا بات کوئی اس بت عیار کی سمجھے
بولے ہے جو مجھ سے تو اشارات کہیں اور
کسان احتجاج کو کے سی آر کی تائید
ملک میں جملہ گھریلو پیداوار میں اہم رول ادا کرنے والے زرعی شعبہ کی صورتحال بحران کا شکار کہی جاسکتی ہے ۔ کسان احتجاج کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے مطالبات کی تکمیل تک احتجاج کو ختم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ مرکزی حکومت کے ساتھ کسانوں کی بات چیت تو ہوئی ہے لیکن وہ غیر مختتم رہی ہے ۔ ہندوستان بھر میں کسانوں کے احتجاج کی تائید بھی کی جا رہی ہے ۔ کسان برادری کے تئیں سارے ملک کے عوام میں ہمدردی پائی جاتی ہے ۔ مختلف ٹریڈ یونین تنظیموں اورمزدور یونینوں نے بھی کسان احتجاج کی تائید کردی ہے ۔ ٹرانسپورٹ شعبہ میں بھی کسانوں کے احتجاج کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ ایسے میں سیاسی جماعتیں بھی ان کی تائید کیلئے آگے آ رہی ہیں۔ ان میں اہمیت کی حامل تلنگانہ کی برسر اقتدار تلنگانہ راشٹرا سمیتی بھی ہے جس نے شائد پہلی مرتبہ مرکز کی بی جے پی حکومت کے خلاف کھل کر مخالفت کرنے کا اعلان کیاہے ۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی علاقائی جماعتوں میں اہمیت کی حامل ہے اور اس کے موقف کو اہمیت حاصل رہتی ہے ۔عوام کسی بھی مسئلہ پر اس پارٹی کے موقف کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ٹی آر ایس سربراہ و چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندر شیکھر راو نے کسان احتجاج کی ہی تائید نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے کسانوں کی جانب سے 8 ڈسمبر منگل کو معلنہ بھارت بند کی بھی تائید کا اعلان کردیا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے پارٹی کارکنوں پر زور دیا ہے کہ وہ کسانوں کی تائید میںآگے آئیں۔ کسان احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ٹی آر ایس کا یہ اعلان انتہائی اہمیت کا حامل کہا جاسکتا ہے کیونکہ ٹی آر ایس نے اب تک کھل کر مودی حکومت کی مخالفت نہیں کی تھی لیکن اب چندر شیکھر راو نے مودی حکومت سے راست ٹکراو کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جس طرح سے تلنگانہ کو مرکزی حکومت کی جانب سے فنڈز فراہم کرنے سے گریز کیا جاتا رہا ہے اس کو بھی بلدیہ کے انتخابات میں موضوع بحث بنایا گیا تھا ۔ یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ مرکزی حکومت تلنگانہ کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہی ہے ۔ دوسری ریاستوں کو فنڈز دئے جا رہے ہیں اور تلنگانہ کو اس کے جائز حق سے محروم کیا جا رہا ہے ۔
بلدیہ کے انتخابات میں ہی ٹی آر ایس نے بی جے پی کے خلاف لب کشائی کا آغاز کردیا تھا اور اب کسانوں کے احتجاج کی تائید اور بھارت بند کی تائید نے بالکل ٹی آر ایس بمقابلہ بی جے پی صورتحال پیدا کردی ہے ۔ چندر شیکھر راو تمام حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بھی مسئلہ پر موقف اختیار کرنے والے چیف منسٹر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ تلنگانہ میں ان کی حکومت نے جو کارکردگی اب تک دکھائی ہے اس سے تمام طبقات میں اطمینان کی لہر بھی پائی جاتی ہے ۔ ان کے تجربہ کی بنیاد پر انہوں نے کسانوں کے احتجاج اور بھارت بند کی تائید کا جو اعلان کیا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے جس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ تلنگانہ میں بھی اب ٹی آر ایس بمقابلہ بی جے پی ٹکراو کی کیفیت میں شدت پیدا ہوگی ۔ یہ ٹکراو بلدیہ کے انتخابات میں شروع ہوچکا تھا اور اب آئندہ وقتوں میں یہ ٹکراو شدت اختیار کریگا ۔ کے سی آر نے مرکزی حکومت سے ٹکراو کو قبول کرتے ہوئے کسانوں کی تائید کا فیصلہ کیا ہے ۔ ان کی اپیل پر یہ امید بھی کی جاسکتی ہے کہ بھارت بند کے موقع پر منگل کو ٹی آر ایس کے کارکن بھاری تعداد میں حکومت کے نئے زرعی قوانین کے خلاف پوری شدت سے احتجاج میں حصہ لیں گے اور کسانوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش میںبھی کوئی کسرباقی نہیں رکھیں گے ۔ جس طرح ملک بھر میں کسانوں کے حق میں رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے اسی طرح تلنگانہ میں بھی اس تعلق سے عوامی بیداری پیدا کی جائے گی ۔
سیاسی حلقوں میں یہ تاثر بھی تقویت پاتا جا رہا ہے کہ کسانوں کا احتجاج واجبی ہے اورمرکزی حکومت نے کارپوریٹ شعبہ کو فروغ دینے کیلئے کسانوں کے مفادات پر سمجھوتہ کرنے والے قوانین بنائے ہیں۔ مودی حکومت کو کسانوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جو کسان دہلی میں احتجاج کر رہے ہیں وہ ہریانہ اور پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر دوسری علاقائی جماعتیں بھی کسانوں کی تائید میں اتر آتی ہیں تو مودی حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں مدد ملے گی ۔ اسی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے کے سی آر نے شائد کسان احتجاج کی تائید کا فیصلہ کیا ہے اور ان کا یہ فیصلہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی دور اندیشی پر مبنی ہے اور یہ کسانوں کے حق میں بھی ہے ۔