کسان پھر سڑک پر کیوں ؟

   

لگا رہتا ہے بحرِبیکراں میں خوف طوفاں کا
کوئی ساحل مقدر میں مرا ساحل نہیں ہوتا
ہندوستان جہاں دنیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے وہیں یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہندوستان کی معیشت میں زرعی شعبہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ ہندوستان کا زرعی شعبہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور جملہ گھریلو پیداوار میں اضافہ کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے ۔ زرعی شعبہ ہی وہ شعبہ کہلاتا ہے جو ملک میں لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے ۔ یہ روزگار راست بھی ہوتا ہے اور بالواسطہ بھی ہوتا ہے ۔ ملک کے کسان اپنی محنت شاقہ کے ذریعہ اس شعبہ کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ملک کے عوام کو اناج فراہم کرتے ہیں اور پھر اپنی پیداوار کی اشیاء بیرونی ممالک کو روانہ کرتے ہوئے ہندوستان کے بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ کی وجہ بنتے ہیں۔ تاہم گذشتہ چند برسوں سے ملک کے کسانوں کو اپنی پیداوار پر اقل ترین امدادی قیمت مل نہیں پا رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں ملک کی معیشت میں اہم رول ادا کرنے والے کسانوں کی معیشت متاثر ہو رہی ہے ۔ کسان کسمپرسی کا شکار ہونے لگے ہیں اور کچھ معاملات میں تو کسانوں نے قرض کے بوجھ سے پریشان ہو کر خودکشی بھی کرلی ہے ۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہو رہا ہے کہ ملک کی کچھ ریاستوں میں کسانوں کے قرض معاف کئے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود کسانوں کو معاشی طور پر راحت نہیں مل رہی ہے ۔ مرکزی حکومت نے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اس کیلئے ایک وقت مقرر کیا گیا تھا ۔ وہ وقت بھی گذر گیا لیکن کسانوں کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی انہیں کسی طرح کی سہولیات دستیاب ہوئی ہیں۔ کسانوں نے کچھ برس قبل مرکزی حکومت کے تیار کئے گئے متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا ۔ اس احتجاج نے ملک میں ایک تاریخ بنائی اور مرکز نے کسانوں کی بہتری کیلئے یہ قوانین واپس بھی لئے تھے ۔ اس طرح کسانوں نے اٹل موقف رکھنے والی حکومت کو بھی اپنے قوانین واپس لینے پر مجبور کیا تھا ۔ مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد کسانوں نے اپنے احتجاج سے دستبرداری اختیار کی تھی اور انہوں نے اقل ترین امدادی قیمت کا قانون بنانے کا مطالبہ کیا تھا ۔
کسانوں نے صبر کے ساتھ مرکزی حکومت کی جانب سے اقل ترین امدادی قیمت پر قانون سازی کئے جانے کا انتظار کیا لیکن مرکز نے ایسا کچھ نہیں کیا اور کسانوں کو بے یار و مددگار ہی چھور دیا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ کسانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا ہے اور کسانوں نے ایک بار پھر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ کسان برادری ایک ہفتہ قبل ہی احتجاج شروع کرنا چاہتی تھی تاہم حکام کے ساتھ بات چیت کے بعد اس احتجاج کو ایک ہفتہ کیلئے ملتوی کیا گیا تھا ۔ اس ایک ہفتے کے دوران بھی کسی طرح کی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے جس کے بعد آج ایک بار پھر کسانوں نے احتجاج کی راہ اختیار کی ہے ۔ آج پولیس کے ساتھ ان کا ٹکراؤ بھی ہوا اور پولیس کو احتجاجی کسانوں کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کے شیلس برسانے بھی پڑے ۔ اس واقعہ میں دو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ ایک طرح سے حکومت اور کسانوں کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت کا آغاز ہے ۔ حکومت کو کسانوں کے عزم و حوصلے کا بھی پتہ ہے ۔ سابقہ احتجاج میں سینکڑوں کسانوں کی شہادت کے باوجود کسان اپنے مطالبہ سے پیچھے نہیں ہٹے تھے اور انہوں نے حکومت کو متنازعہ قوانین واپس لینے پر مجبور کردیا تھا ۔ اس کے باوجود حکومت ان کے مطالبات پر کسی طرح کی سنوائی کرنے اور اس پر کسانوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کوئی حل تلاش کرنے کی بجائے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے پر تلی ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں صورتحال کے ابتر اور سنگین ہونے کے خدشات لاحق ہیں۔
ملک کے جو حالات ہیں اور مہنگائی جس سطح پر پہونچ رہی ہے اس میں کسانوں کو احتجاج کا موقع دیتے ہوئے عوام کیلئے مزید بوجھ برداشت کرنے جیسی صورتحال پیدا نہیں کی جانی چاہئے ۔ جو کسان واجبی اور جائز مطالبات کر رہے ہیں ان پر حکومت کو سنجیدگی سے اور ہمدردی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کا جائزہ لیتے ہوئے ایک وقت مقرر کیا جانا چاہئے جس کے اندر ان مسائل اور مطالبات کی یکسوئی کی جانی چاہئے ۔ ٹکراؤ اور مڈ بھیڑ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوتی اور اس کے نتیجہ میں ملک کا ہی نقصان ہوتا ہے ۔ اس کو ٹالنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور حکومت کو یہ ذمہ داری پوری کرنی چاہئے ۔