از: مفتی محمد وقاص رفیع مرسلہ : سعدیہ محمد
کسبِ حلال اور کسبِ حرام کے درمیان تیسرا ذریعہ کسبِ مشتبہ کا ہے۔ یعنی ایسے طریقے سے مال کمانا کہ جس کے حلال اور حرام ہونے میں شک و شبہ ہوکہ بعض اعتبار سے اُس کا حلال ہونا معلوم ہورہا ہو اور بعض اعتبار سے اُس کا حرام ہونا معلوم ہورہا ہو۔ تو ایسے مال کا کمانا بھی حرام ہے،چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر ؓفرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہ کی چیزیں ہیں، جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔سو جو شخص شبہات سے بچا اُس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کرلیا اور جو شخص شبہات میں پڑگیاوہ حرام میں پڑجائے گا۔(بخاری و مسلم) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی ایک بات یاد رکھی ہوئی ہے کہ جو چیز شک میں ڈالے اُس کو چھوڑ دیا جائے اور اُس چیز کی طرف بڑھا جائے جو شک میں نہ ڈالے،اِس لیے کہ صحیح چیز میں اطمینان ہوتا ہے اور غلط چیز میں شک ہوتا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف)
چناں چہ حافظ ابو قاسم طبرانی ؒ نے اپنی سند سے مشہور صحابی حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلی ؓکاایک واقعہ نقل کیا ہے کہ” ایک مرتبہ آپؓ نے اپنے غلام کو ایک گھوڑا خرید لانے کا حکم دیا ، وہ تین سو درہم میں گھوڑا خرید لایا اور گھوڑے کے مالک کو رقم دلوانے کے لیے ساتھ لے آیا ، آپؓ کو طے شدہ دام بھی بتلائے گئے ، اور گھوڑا بھی پیش کردیا گیا ، آپؓ نے اندازہ لگایا کہ گھوڑے کی قیمت تین سو درہم سے کہیں زیادہ ہے، چنانچہ آپؓ نے گھوڑے کے مالک سے فرمایاکہ : ”آپ کا یہ گھوڑا تین سو درہم سے زائد قیمت کا ہے، کیا آپ چار سو درہم میں فروخت کریں گے ؟ ۔“ اس نے جواب دیا : ” جیسے آپ کی مرضی ؟“ پھر فرمایا : ” آپ کے گھوڑے کی قیمت چار سو درہم سے بھی زائد ہے ۔ کیا آپ پانچ سو درہم میں بیچیں گے ؟ “ اس نے کہا کہ : ”میں راضی ہوں۔ “ اسی طرح آپؓ گھوڑے کی قیمت میں سو سو درہم کی زیادتی کرتے چلے گئے ۔ بالآخر آٹھ سو درہم میں اس سے گھوڑا خرید لیا اور رقم مالک کے حوالے کردی ۔ آپؓ سے سوال کیا گیا کہ : ” جب مالک تین سو درہم پر راضی تھا ، تو آپ نے اسے آٹھ سو درہم دے کر اپنا نقصان کیوں مول لیا ؟ “ آپؓ نے فرمایا : ”گھوڑے کے مالک کو اس کی اصلی قیمت کا صحیح اندازہ نہیں تھا ، میں نے خیر خواہی کرتے ہوئے اس کو پوری قیمت ادا کی ہے ، کیوں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ: ” ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی والامعاملہ کیا کروں گا ۔ میں نے اپنے اس وعدے کا ایفا کیا ہے۔ “ ( شرح مسلم للنووی )
حافظ ابن حجر مکی ؒ نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے تجارت میں اپنے ایک شریک کے پاس کپڑا بھیجا اور بتایا کہ کپڑے میں عیب ہے، خریدار کو عیب سے آگاہ کردینا، اُس نے وہ کپڑا فروخت کیا، لیکن خریدار کو عیب بتلانا بھول گیا، امام ابوحنیفہ ؒ کو جب معلوم ہوا اُس سے حاصل ہونے والی ساری قیمت صدقہ کردی، جس کی قیمت تین ہزار درہم تھی۔ (الخیرات الحسان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمان)