قریب سے اگر ”بھگوا“ اور”ہندوتوا“ موسیقی کا جائزہ لیاجائے تو جس کو بھوجپوری دھن پر گایااو ربجایا گیا ہے اس کو اب تک ہزاروں سے لاکھوں لوگوں نے دیکھا او رسنا ہے‘ خلاصہ اس بات کو ہوا ہے کہ کس طرح اس کی شاعری تیاری کی گئی ہے اور مذہبوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے لئے کس طرے اسکا استعمال کیاجارہا ہے۔
اس کے لئے مثال لکھنو نژاد گلوکار پریم کرشنشی کا گانا ہے جس میں مصرعہ ”ہندو کا ہندوستان‘ دلال جاؤ پاکستان۔ ہندوکا ہندوستان مسلم جاؤ پاکستان“۔
مذکورہ ویڈیو کو یوٹیوب پر 70لاکھ لوگوں نے دیکھا ہے۔ یہ ایک مثال ہے اس طرح کئے کئے ویڈیو ”نفرت“ پر مشتمل سوشیل میڈیاپر موجود ہیں۔
نفرت پر مشتمل تقاریر کے علاوہ یہاں پر ان گانوں میں تلواریں‘ لاٹھیاں‘ لوگوں کو ہجوم کے ہاتھوں قتل کرنے کی دھمکیاں‘ بے رحمی کے ساتھ پیٹائی اور بابری مسجد کی شہادت“ کا تصور بھی پیش کیاگیا ہے۔
اس طرح کے کئی گانے ہیں ہیں۔ اس کے باوجود مذکورہ تین گلوکاروں پر دی کوائنٹ کی تحقیقات میں یہ بات سامنے ائی ہے کہ نفرت پر مشتمل تقاریر کا ایک مقدمہ بھی ان پردرج نہیں کیاگیا ہے
مذکورہ تین ’بھگوا‘سنگرس
پہلا۔ مخالف مسلم بھگوا میوزک کا اصل سرغنہ
آپ سندیپ اچاریہ کے متعلق بات کررہے ہیں۔
مذکورہ ہندوتوا دی گانے جو گائے ہیں وہ 150‘200‘اور 500سنگرس نے گایا ہے۔ تمام نے میری نقل کی ہے۔ پانچ سے سات سال قبل اس رحجان کی شروعات میں نے کی تھی“۔
یہ وہ اچاریہ ہے جس نے خود کو اپنے موسیقی پر فخریہ پیشکش کی اور رپورٹر کو اپنا تعارف کروایا۔ ایودھیا نژاد اچاریہ ہندو یوا واہانی کا ایک رکن ہے‘
یہ وہ گروپ ہے جس کا چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کے قریبی میں شمار ہے اور یوپی بھر میں اس کے ہزاروں کارکن ہیں۔آخری مرتبہ جب دیکھا گیا تھا اس وقت تک اس کے یوٹیوب چیانل کے صارفین 44,000تک تھے‘ اچاریہ کا ویڈیو ز لاکھوں لوگوں نے دیکھا ہے۔
اس نے دی کوائنٹ کو بتایا کہ وہ اپنی تیارکردہ ویڈیوز سے یوٹیوب پر 45,000تک کمائی کرتا ہے اور دوسرے یہ وہ اسٹیج مظاہروں کے لئے چالیس سے 45ہزار تک پیسے لیتا ہے۔
گانوں کو پرڈیوس کرنے کے لئے وہ اپنے مداحوں سے عطیات بھی لیتا ہے۔ ہر ماہ وہ دو سے تین گانا جاری کرتا ہے
دوسرا۔ بھوجپوری موسیقی کو چمکتاہوا اسلام فوبیا میں تبدیل کردیا گیا ہے
اترپردیش کے یوپی سے تعلق رکھنے والے پریم کرشنا ونشی نے کہاکہ ”پہلے میں نے بھوجپوری گانے پیش کئے اور کئی گانے میرے شائع ہوئے مگر اس کے بعد میں ہندوتوا کی طرف راغب ہوا۔
ہندوتوا موسیقی میں یہ میری شروعات ہے‘ تاکہ ہمارے مذہب کو جگاسکوں‘ سناتھن دھرم کی جگا سکوں‘ یہی وجہہ ہے کہ میں نے ہندوتوا گانا شروع کردئے“۔
کرشنا وانشی ایک کمپیوٹر سائنس انجینئر ہے اور لکھنو کی ایک خانگی کمپنی میں 2019کی شروعات تک کام کرتاتھا۔ اس نے تمام کام چھوڑ کر ہندوتوا موسیقی پر اپنی توجہہ مرکوز کرلی۔
اس کے یوٹیوب چیانل پر 33ہزار صارفین ہیں اور ہر مظاہرے پر وہ 25سے 30ہزار روپئے تک کماتا ہے۔
ہندو مذہبی اجتماعات میں وہ اپنے کام پیش کرتا ہے اور ہر ماہ پانچ سے سات گانے تیار کرتا ہے
تیسرا۔ حساس ہم آہنگ مگر ’کٹر ہندو‘
اپنے گانے کی مدافعت کرتے ہوئے پوان ورما نے کہاکہ ”بابری مسجد کا انہدام درست تھا۔ وہ کبھی مسجد نہیں تھی۔ وہ کچھ نہیں تھا“‘مذکورہ گانا 1992میں بابری مسجد کی شہادت انجام دینے والے کرسیوکوں کی ”قربانیوں“ کے جشن کے طور پر تیار کیاگیا۔
برسوں سے ہندو بنیاد پرستی‘ رام جنم بھومی جیسے مسائل کے تاثرات ان کی موسیقی پر نکات ملتے ہیں۔
نفرت پر مشتمل تقریر کو روکنے کے لئے بنائے گئے قوانین کے باوجود‘ ایک واحد مقدمہ بھی مذکورہ سنگرس میں سے کسی پر بھی درج نہیں کیاگیا ہے۔
یہاں پر یہ بھی حقیقت ہے کہ ائی پی سی کے کئی دفعات ہیں جو قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب پایاجاسکتا ہے۔جسمیں سے ایک 153اے ہے جو دومذہبی گروپس کے مابین نفرت پھیلانے کے خلاف استعمال کیاجاسکتا ہے۔
اس کے تحت تین سال قید اور جرمانہ بھی عائد کیاجاسکتا ہے۔
واقعہ کی نوعیت تبدیل ہونے پر پانچ سال اور جرمانہ تک کی سزاء بھی ہوسکتی ہے