نئی دہلی۔وزارت داخلہ میں کشمیر امور کے انچارج وزیرجی کشن ریڈی نے کہاکہ مذکورہ حکومت ایک ”خصوصی حکمت“ عملی اختیار کئے ہوئے ہیں اور اس پر ”رازداری“ کو برقرار رکھتے ہوئے جموں اور کشمیر پر پارلیمنٹ میں قانون لایاجس کی وجہہ وادی کے حالات ہیں۔
جموں اور کشمیر سے ارٹیکل 370کی برخواستگی اور ریاست کو دو مرکزکے زیر نگرانی علاقوں میں تبدیل کردئے جانے کے بعد پہلی مرتبہ بات کرتے ہوئے مملکتی وزیر نے وادی میں سیاسی قائدین کی گرفتاری کو حق بجانب قراردیا ہے۔
ریڈی نے ای ٹی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ”ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ وادی میں سیاسی قائدین کو گرفتار کیاگیاہے۔ مذکورہ کانگریس پارٹی نے شیخ عبداللہ کو د س سالوں تک ریاست کے باہر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کردیاتھا“۔
جموں او رکشمیر نیشنل کانفرنس کے سابق صدر عبداللہ کو 1953میں جموں کشمیر کے وزیراعظم کی حیثیت سے اس وقت کے دستوری صدر برائے ریاست کرن سنگھ جو کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے تھے نے معزول کردیاگیا تھا۔
وہ اپنی آبائی ریاست سے گیارہ سالوں تک دور جیل میں قید تھے۔مسٹر ریڈی نے کانگریس کی زیرقیادت مرکزی او رریاستی حکومتوں کے دوران سابق میں پیش وادی میں متعدد مرتبہ کرفیو نافذ کرنے او رمقامی قائدین کو جیل میں بند کرنے کے واقعات کا حوالہ دیا۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ”کانگریس نے اپنی معیاد کے دوران جے کے ایل ایف صدر یسین ملک کو کئی مرتبہ گرفتار کیاہے“۔
موجودہ بند کے متعلق انہوں نے کہاکہ اس کی منشاء صرف لوگوں کی جان بچانا ہے کیونکہ پاکستان حالات خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
مذکورہ منسٹر نے کہاکہ ”اگر آپ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے بیان کی طرف دیکھیں تو‘ یہ صاف ہوجائے گا کہ وہ وادی میں وہ مشکل کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔
وہ (پاکستان) کی کوشش ہے کہ وادی میں علیحدگی پسند اور دہشت گردی کو فروغ دیں۔یہ معاملہ ہندوستان کاداخلی ہے نا کہ بین الاقوامی“۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ”واجپائی (اٹل بہاری) کی جانب سے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایاگیااور انہوں نے کیاکام کیا؟انہوں نے ہمیں کارگل دیا۔ ہمیں پاکستان کی کاروائی سے بچنے کے لئے احتیاطی اقدامات اٹھانا ہے“۔
جب پوچھا گیا کہ جموں کشمیر ریاست کی تنظیم جدید کے متعلق عوام سے نہیں پوچھا گیاتو مسٹر ریڈی نے کہاکہ ”ہمیں کشمیری عوام پر پورا بھروسہ ہے۔
میں ان سے استفسار کرنا چاہتاہوں کہ انہیں ارٹیکل 370سے کیاحاصل ہوا؟ ہم نے خصوصی حکمت عملی کو اس میں اپنا یا کیونکہ اس معاملے کو نہایت رازداری میں رکھنا تھا۔
ہم کشمیر میں امن وترقی کے لئے سنجیدہ ہیں۔ ہم کشمیری عوام کو اس بات کا یقین دلانا چاہتاہوں کہ ان کی تہذیب وتمدن او رامان کو متاثر نہیں کیاجائے گا۔
ہر روز حالات میں بڑے پیمانے پر سدھار آرہا ہے۔ جیسے ہی سکون ہوجائے گا‘ ہم رابطے میں حائل تمام رکاوٹوں کو بھی دور کردیں گے“۔
ایک عہدیدار نے کہاکہ یوم آزادی کے بعد جمعرات کے روز تفصیلی طور پر سکیورٹی کا جائزہ لیاجائے گا اور جمعہ کی نماز کے لئے تحدیدات میں نرمی لائی جائے گی۔
تاہم انٹرنٹ پر امتناع آگے بھی جاری رہے گا۔مذکورہ ریاستی انتظامیہ کا استفسار ہے کہ وہ جموں او رکشمیر کے علاوہ لداخ میں ارٹیکل370کو ہٹانے کے فوائد پر مشتمل ایک تحریک کی شروعات کرے گی۔
عہدیداروں کے مطابق جموں اور کشمیرانتظامیہ نے ایک مسودہ تیار کیاہے”کم سے کم وادی کے بیس خاندانوں کو آنے والی تبدیلیوں سے واقف کروائے جائے گا“