کشمیری قائدین کی حراست

   

حالات میکدے کے کروٹ بدل رہے ہیں
ساقی بہک رہا ہے میکش سنبھل رہے ہیں
کشمیری قائدین کی حراست
جموں و کشمیر کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے قائدین کو گذشتہ 6 ماہ سے نظر بند کرنے کے بعد اب ان کی میعاد محروس ختم ہوتے ہی ان پر دوسرا قانون نافذ کردیا گیا ۔ جس کے تحت یہ قائدین آئندہ دو سال تک قید کی زندگی گزاریں گے ۔ سیکوریٹی وجوہات پر گرفتار کرلیے گئے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو بغیر کسی الزام کے مزید قید کی زندگی گزارنی پڑے گی ۔ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے کشمیرکو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ بناتے ہوئے اپنا سیاسی کیرئیر کا طویل کا حصہ کشمیر کے لیے وقف کردیا تھا ۔ اس کے باوجود کشمیر سے آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے بعد کشمیری قائدین کو محروس رکھا گیا ہے ۔ عمر عبداللہ کے والد اور سابق چیف منسٹر فاروق عبداللہ 82 سال کو بھی نظر بند رکھا گیا ۔ کشمیر میں مرکز کی مودی حکومت کی کارروائیوں کے خلاف عالمی سطح پر شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے ۔ وزیراعظم مودی نے عالمی دباؤ کی پرواہ کئے بغیر یہ کہا کہ کشمیر میں ان کی حکومت کے اقدامات دراصل اس خطہ میں امن لانے کے لیے ہیں ۔ گذشتہ 3 دہوں سے یہاں مختلف عنوانات سے کشمیر عوام کو پریشان کیا جاتا رہا ہے ۔ اب 370 کی برخاستگی کے بعد کشمیری عوام اپنی ہی سرزمین پر قید و بند کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ انٹرنیٹ سرویس کی معطلی اور مواصلاتی نظام پر پابندی کے باعث اس علاقہ کو ماباقی دنیا سے منقطع ہوچکا تھا ۔ اب مواصلاتی نظام کو جزوی طور پر بحال کردیا گیا ۔ لیکن عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) نافذ کرنے ان کے سیاسی مستقبل پر دو سال کے لیے روک لگادی گئی ۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کو سال 1970 میں متعارف کروایا گیا تھا تاکہ کشمیر میں لکڑی کی اسمگلنگ کو روکا جاسکے لیکن جب 1989 میں علحدگی تحریک کا آغاز ہوا تو اس قانون کا استعمال کرتے ہوئے ہزاروں افراد کی سرگرمیوں کو مقید کردیا گیا ۔ کشمیر پر عالمی اداروں خاص کر اقوام متحدہ کی نظر ہے ۔ اس نے وقتاً فوقتاً کشمیر کے حالات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے مگر یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی کے باوجود یہاں کچھ ایسے واقعات انجام دئیے جارہے ہیں جس میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں ۔ محبوبہ مفتی کی رہائی کے لیے زور دینے والی محبوبہ کی دختر التجا مفتی نے ’ خطرناک قانون پی سی اے ‘ عائد کرنے پر احتجاج کیا ۔ وزیر اعظم مودی نے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 برخاست کر کے کشمیر کو دئیے گئے خصوصی دستوری موقف کو ہی ختم کردیا ۔ یہ فیصلہ کشمیر کے لیے دستوری اور سیاسی موت کے مترادف تھا ۔ کشمیر میں بی جے پی کو مضبوط کرنے والی پارٹیوں کو ہی آج سیاسی قیدی بنادیا گیا ۔ کشمیر کی سیاسی پارٹیوں نے چاہے وہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ہو یا نیشنل کانفرنس جب بھی کشمیر میں اقتدار پر رہی ہیں ہر معاملہ میں مرکز سے تعاون کیا ہے ۔ یہ تعاون چاے مسلح شورش پسندی سے نمٹنے کے لیے ہو یا علحدگی پسندوں سے مذاکرات کے لیے ہو ۔کشمیری پارٹیوں نے مرکزی حکومتوں کے ساتھ بھر پور تعاون کیا ۔ آج اس کا صلہ یہ مل گیا کہ ان پارٹیوں کے اہم قائدین کو زیر حراست رکھا گیا ۔ 5 فروری کو عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی رہائی عمل میں آناچاہئے تھا لیکن دونوں قائدین نے ایک بانڈ پر دستخط سے انکار کیا تو ان پر پی ایس اے لاگو کیا گیا ۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت اپنی دانش کے مطابق منصوبے بناکر غیر جمہوری طرز حکمرانی اختیار کررہی ہے ۔ ان ہندوستانی نواز کشمیری قائدین کی حراست سے پڑوسی ملک میں کئی سوال اٹھائے جارہے ہیں اور یہ کہا جارہا ہے کہ کشمیر کے موجودہ حالات کشمیریوں کی آزادی کی راہ ہموار کررہے ہیں ۔ کشمیری قائدین نے مرکز کے آرٹیکل 370 کو برخاست کرنے کے اعلامیہ کی مخالفت کی تھی اور اس کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے ۔ اگر وادی کشمیر کے حالات اس طرح کشیدہ اور نازک بنائے رکھے گئے تو آگے چل کر مرکزی حکومت کے لیے کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں کیوں کہ اگر کشمیری سیاستداں باہم متحد ہوجائیں تو کشمیری عوام کی انہیں بھر پور تائید حاصل ہوگی ۔ سابق میں ان دونوں پارٹیوں نے قومی پارٹیوں جیسے بی جے پی اور کانگریس سے بھی اتحاد کیا تھا اور آئندہ بھی وہ قومی پارٹیوں کے لیے اہم سیاسی طاقت ثابت ہوسکتی ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر کو مکمل طور پر ریاست کا موقف دیا جانا چاہئے اور زیر حراست قائدین کو رہا کردیا جانا چاہئے ۔۔