کشمیر وادی کا اندرون او ربیرونی رابطہ دنیا سے اب کٹ گیاہے۔تمام انٹرنٹ رابطے‘ سلیولر‘ لینڈ لائن اور کیبل ٹی سروسیس روک دئے گئے ہیں
سری نگر۔ ایک سوالیہ نشان وادی پر لٹکا ہوا کہ جس کے مکین گھروں میں بند ہیں اور سکیورٹی دستے سنسان سڑکوں پر گشت کررہی ہے‘
دوسابق چیف منسٹران تحویل میں ہیں‘ ایک کو گھر کے اندر محروس کردیاگیا ہے اور کئی مرکزی دھاری کی پارٹیوں کے کارکنان کی گھیرا بندی کردی گئی ہے۔
حیرت انگیز بات نئی دہلی میں یہ تحریر تبدیل ہوئی اور اس کو پارلیمنٹ میں منظور کرلیاگیا‘ مذکورہ ارٹیکل 370میں ترمیم‘ جموں کشمیر کا خصوصی دستور موقف کی برخواستگی اور اس کو ایک یونین ٹریٹری میں کم کرنا ریاست کی تقسیم کے بعد ریاست کے شہری اچنبہ میں ہیں اور سرجوڑ کر کیاہورہا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہی
ں۔نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ ”یہ ایک بڑا صدمہ ہے وار اس کا احساس ابھی پھیل رہا ہے۔
یہاں پر اس ناخواندہ فیصلے کا ردعمل ہوگا۔ یہ ایک اختیارات چھیننے والا بڑا اقدام 1846کے بعد سے ہوا ہے جو امرتسر صوبہ میں (برطانیہ اور راجہ گلاب سنگھ کے درمیان میں ہوا تھا) جب کشمیرکو فروخت کیاگیاتھا‘ جس میں اراضی پارنی اور آسمان بھی شامل تھا“۔
ایسی جگہ جہاں تاریخ کا وزن کافی بھاری ہوتا ہے‘ وہاں پر اس طرح کا غیریقینی مستقبل کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔کشمیر وادی کا اندرون او ربیرونی رابطہ دنیا سے اب کٹ گیاہے۔تمام انٹرنٹ رابطے‘ سلیولر‘ لینڈ لائن اور کیبل ٹی سروسیس روک دئے گئے ہیں۔
گھر والو ں باہر جانے کی اجازت نہیں ہے‘ انتظامیہ کوئی کرفیو پاس جاری نہیں کررہا ہے‘ یہاں تک کہ اپنے ہی ملازمین اور سکیورٹی دستے سرکاری شناختی کارڈ کو پاس کے طور پر تسلیم نہیں کررہے ہیں۔ذرائع ابلاغ کا استقبال نہیں ہے۔
وہاں پر پہنچنے والے زیادہ تر ٹی وی ٹیم شہر کے زیر وبرج سے 1اسکوٹر کیلومیٹر پر کھڑے ہوئے ہیں۔ یہاں سہ کچھ سکیورٹی میں نرمی ہے جو ائیرپورٹ اور راج باغ ’جواہر نگر تک پھیلا ہوا علاقہ ہے۔
یہاں پر ایک جگہ ٹی وی کیمرہ فلم کے لئے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سڑکوں کی حصار بندی کردی گئی ہے اور ہمیشہ کے چیک پوائنٹس پر بھاری پولیس کی جمعیت متعین ہے اور نیم فوجی دستوں کی گشت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
زیادہ تر پولیس جوان بندوقوں سے نہیں بلکہ لاٹھیوں سے لیز ہیں۔ کرفیو کی منظر کشی کی کوشش کرنے والے ایک صحافی کو پولیس عہدیدار نے جہانگیر چوک کے قریب ندی کے پاس پیٹائی کردی۔
پچھلے دونوں سے انڈین ایکسپریس کی رپورٹرس کو ان کے دفتر میں محروس کرکے رکھ دیاگیا ہے جہاں سے وہ پیدل چل کر مقامی لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں۔
اس عمارت میں بھی درجنوں پولیس عہدیداروں کو تعینات کردیاگیا ہے‘ ہمارے کے کوریڈار میں وہ پناہ لئے ہوئے ہیں۔ جگہ کم ہونے کی وجہہ سے بیشتر اسکولوں‘ کالجوں اور سرکاری عمارتوں میں سکیورٹی دستوں کو متعین کردیاگیا ہے جو بیرونی ریاست سے کشمیر طلب کئے گئے ہیں۔
منگل کے روز ایک نصف درج بارڈر سکیورٹی فورسس کے جوانوں سے بھری بسیں راجستھان سے وادی پہنچی اور سٹی سینٹر کی خالی پارکنگ میدان میں ان کاڈھیرہ ڈالا دیاگیاہے۔انڈین ایکسپریس نے کئی مقامی لوگوں اور سرکاری ملازمین اور پولیس جوانوں سے بات کی۔
جن سے گہری غم او رغصہ کا اشارہ ملا جس میں اکثریت ریاست کی تنظیم جدید پر مشتمل فیصلے کا سبب خوف ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ اس کی منشاء”جموں کشمیر کی جغرافیائی تبدیلی اور اس کا مقصد مسلم آبادی کی حصہ داری میں کمی لانا ہے“۔
اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کرنے والے ایک تیس سالہ ابی گوذیر نے سری نگر میں کہاکہ ”ہم جانتے ہیں یہ کیاکررہے ہیں۔
یہ پہلے سرمایہ کاری کے نام پر ائیں گے“۔
اگرچکہ کے علیحدگی پسندیہ کہہ رہے ہیں کہ”ہم نے آپ سے یہ کہاتھا“سارے موافق ہندوستانی سیاسی نظام داؤ پرلگا ہوا ہے
۔پیپلزڈیموکرٹیک پارٹی کے ایک لیڈر نے کہاکہ ”یہ حکومت ان مسلمانوں کی آواز کو دبارہی ہے جن لوگوں نے اپنی عوام کی باتوں کو نامنظور کردیا اور اپنی خون دیا کیونکہ ان کا سکیولر ہندوستان پر ایقان ہے اور وہ ریاست کو سکیولر ہندوستان کا حصہ بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ مرکزی دھاری کی پارٹیوں کے لئے یہاں پر کچھ نہیں باقی رکھا گیاہے۔
نیشنل کانفرنس سے لے کر نئی میدان میں اترے شاہ فیصل تک۔ یہ تمام ایک ہی کشتی میں اگئے ہیں“۔
سڑکیں بند ہیں‘ اے ٹی ایمس میں بناء پیسوں کے ہیں‘ پٹرول پمپس بندہیں اور گھروں کے اطراف میں کھانے پینے کی چیزیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔