کشمیر۔کیابی بی سی پھر ایک مرتبہ رازداری کے پردے اٹھائے گی؟۔

,

   

اسی وجہہ سے کہاکہ بی جے پی نے اپنی مختصر موصلاتی ریڈیو خدمات کشمیر تک پھیلانے کا فیصلہ کیاہے تاکہ کمیونکشن پر تحدیدات کو شکست دے سکے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے بی جے پی نے یہ اہم رول ادا کیاہے۔

اور جو اچھے کام کے لئے ہے۔ کیونکہ مرکزی دھارے کے میڈیا کی ریڑھ کی ہڈی ایل کے اڈوانی کے الفاظ میں جب اسکو جھکنے کے لئے کہاگیاتو اس نے رینگنا شروع کردیاہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے اس بناء ریڑھ کی ہڈی والے حالات پر 2014مئی میں اپنی پہلی پارلیمانی تقریر میں ان وجوہات پر روشنی ڈالی تھی۔

حالانکہ انہوں نے کوئی میڈیاکا ذکر نہیں کیاتھا‘انہوں نے1200سال کی ”غلامی“ یا پھر دور حکومت کی کراہیت کا اندازہ لگایاتھا۔مغلوں کو ذرائع ابلاغ کے چہروں پر کارضرب کا مورد الزام نہیں ٹہرایاجاسکتا کیونکہ ان کے دور میں کوئی میڈیانہیں تھا جس کوبولنے سے روکاجائے۔

ہاں ایک اُردو اخبار کے نام سے مشہور پیپر کے عظیم ایڈیٹر کو برٹش نے توپوں پر باندھ دیاتھا اور ان کی تنقیدیدیں تحریروں پر انہیں آڑادیاگیا۔ مذکورہ ایڈیٹر مولوی محمد باقر دراصل اردو ادب کے سب سے بڑے ماہر محمد حسین آزاد کے بیٹے تھے۔

مذکورہ میڈیا جو آج کی تاریخ میں ہم جانتے ہیں برطانیہ کو تحفہ ہے۔یہ شاہی ڈی این اے اس ذرائع ابلاغ میں سرایت کررہا ہے‘ دونوں پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا اس کی لپیٹ میں ہیں‘ جس کا ہندوستانی ذہنیت پر غلبہ ہے۔

مارک ٹیون نے اپنے انگلی اعصاب پر رکھی ہے”یہاں پردو دستے یہ ہے جو دنیا کے کونے کونے تک روشنی ڈالیں۔ آسمانوں میں سورج اور مذکورہ اسوسیٹ پریس یہاں پر نیچے ہے“۔

یہ مغربی ”غلامی“ ہے جو ہماری قوم پرستی کو برہم کررہی ہے۔قومی پرستی کا تمغہ پہننے کے لئے فارمولہ بہت آسان ہے‘ پاکستان کے خلاف نفرت پھیلائیں اور اپنے اولادوں کو مستقل طور پر امریکہ مقیم کرنے کے لئے کام کریں۔مذکورہ اگلے روز انڈین ایکسپریس نے اپنے اخبار کا پہلا صفحہ ایک اشتہارت کے لئے وقف کردیا۔

جسکی سرخی تھی ”یہ آپ رائے آپ کی؟“۔ اور ”آپ کی رائے آپ سے منسو ب ہوگی“۔ مذکورہ اشتہارت پر دستخط ثبت تھی کہ”دی انڈین ایکسپریس برائے ہندوستانی عقل مند“۔

ستم ظریفی سے اشتہار بھرا ہوتھا۔ نیوز پیپر کا اندرونی ایک پورا صفحہ‘ کم سے کم ہفتہ میں تین سے پانچ مرتبہ بشمول مرکزی اداریہ ماہرمعاشیات کو بھی وہاں سے ہٹالیاگی

ا۔کیو ں زی جین پنگ پھسل رہا ہے‘ کس طرح پوٹین نے گشت کرنا ختم کردیا‘ کیوں مادراؤ کو وینزولہ چھوڑنا پڑا‘ کیو ں برلن میں یہودی میوزیم مسلم فلسطینی نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ فرانس‘ برطانیہ امریکہ نیوز ایجنسیوں کے علاوہ بے شمار نیوز ائٹم ہیں۔آپ کس طرح ایک نوجوان عورت سے انڈین ایکسپریس کے 28جولائی2019کے شمارے کے پہلے صفحہ کے متعلق وضاحت کریں جس نے اس دنیا میں پہلا قدم رکھا ہے کہ”اپ کی راہی آپ کی ہے“۔

یہ مذکورہ نیوز پیپر کی اپنی رائے خارجی امور‘ مذکورہ معیشت‘متفرق مغربی ایجنسیوں پر ہوتو سوال اٹھانا زیادہ بااثر بات ہ

ے۔ زیادہ تر نیوز پیپرس اس زوایہ پر قصور وار ہیں۔

دی اکنامسٹ ایک بڑی میگزین ہے مگر اس کی دلچسپی دائیں بازو کی مغربی تنصیبات کی نمائندگی میں ہے۔اسکی اشاعت سے ہماری میڈیا میں اس کو تقویت ملی ہے‘

اس ایسے نقطہ نظر سے اپنے برسراقتد ار طبقہ کو بے نقاب کرتے ہیں جو ہمارا نہیں ہے‘اس وقت تک یہ نہیں ہوتا جب تک ہم اپنی آزادی کو اپنے سابقہ حکمرانوں سے منسوب نہیں کرتے۔

بی بی سی نے جو اب تجویز پیش کی جواپنے مختصر موصلاتی ریڈیوکوتوسیع دینے کی تاکہ تحدیدات کو شکست دے سکے وہ اب کیا”بلاشبہ“ ہندوستان ہے۔

یہ پھر ایک ستم ظریفی ہے۔ مذکورہ بی بی سی ہمیشہ ایک ریاست میں جواب دے رہا ہے جہاں پر ایک توازن‘ بے خوف ہندوستانی میڈیا میلوں جاکر لوگوں کے دلوں او رذہنوں پر جیت حاصل کی ہے۔

جب سینئر میر وعظ فاروق موجودہ میروعظ کے والد کا 1990میں قتل کردیاگیاتھا‘ میں بی بی سی کے ستیش جیکب کے ساتھ وہاں پر تھا تاکہ عید گاہ میں نماز جنازہ کی رپورٹنگ کرسکوں۔

کیوں مارک ٹولی بیورو چیف نے اس اہم اسٹوری کی رپورٹنگ کے لئے کیوں نہیں ائے؟۔

اس وقت جب تمام72مرد اور عورتیں تشدد میں۔ اس وقت سے بی بی سی ریڈیو ہی ایک جوا بدہ میڈیاتھا جو کشمیر کور کررہاتھا‘ ٹولی کو بھی یہ معلوم تھا کہ وہ ہجومی تشدد کا نشانہ بن جائیں گے۔

ستیش ان کے نائب تھے وہ اپنے فینسی ریکارڈ کی طرف پلٹ سکتے اور خود کو ”جرمن ریڈیو“ کے طور پر پیش کرسکتے تھے جس پر برہمی کشمیریوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔

ستیش کے ساتھ جلوس جنازہ میں شرکت کے لئے میں پرٹوکشن مانگا۔

دوردرشن پر میری پیشکش کشمیر سے متعلق موضوعات پر نہیں تھی۔ مگر برہم مظاہرین دوپر دو ایک ساتھ ہوگئے اور نہ صرف میری شناخت کی بلکہ ان لوگوں نے میری پیٹائی بھی کی۔ان کے غصہ کی وجہہ مجھے معلوم تھا کیونکہ بی بی سی ریڈیو کے ایک انٹرویو میں میں نے میر وعظ قتل میں ہندوستانی ایجنسیوں پر نہیں بلکہ وادی کے کچھ گروپوں پر انگلی اٹھائی تھی۔

ان لوگوں نے مجھ پر چلا کر کہاکہ”تو ایک سرکاری چمچہ ہے“۔ ہزاروں کی تعداد میں ہجوم اکٹھا ہوگیا۔ فوری بعد ہزاروں لوگ ہتھیار اٹھائے مجھ پر حملے کے لئے تیار ہوگئ

ے۔ یہ ایک عجیب و غریب بھیڑ تھی۔پھر اس کے فوری بعد مختصر چھوٹی آنکھوں والا شخص جو بلیوشرٹ اور ٹروازر پہنے ہواتھا‘ نے ایک ریوالور نکالی۔ وہ ان پر چلایا۔”میں اسے ختم کردوں گا“۔

پھر اس نے ہوا میں ریوالور رلہرائی‘ شوروغل کرتاہجوم”پیچھے ہٹنے لگا“۔اس نے مجھے آستین سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور کہاکہ”اب تم چلے جاؤ اور یہاں پر دیکھائی مت دینا“۔

وہ جموں اور کشمیرلبریشن فرنٹ سے فیروز تھا۔ یہ فرنٹ کا اشارہ تھا کہ وہ مخالف ہندوستان نہیں ہے۔