کشمیر میں امیت شاہ سرگرم مقصد مثبت یا منفی؟

   

رام پنیانی
عام انتخابات 2019 میں زبردست خط ِ اعتماد (مینڈیٹ) ملنے کے بعد نریندر مودی حکومت مضبوط موقف میں ہے۔ اب مسٹر امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں ، جو مودی کے بعد سب سے زیادہ بااثر شخص معلوم ہوتے ہیں۔ ایسی توقع ہے کہ وہ مسلسل بگڑتے مسئلہ کشمیر پر خصوصی توجہ دیں گے۔ مختلف سوشل گروپ، کشمیر میں جاری ہنگامہ کے متاثرین بھی ایسے اقدامات کے منتظر ہیں جو وادی میں امن اور ہوشمندی کو بحال کرسکیں۔ ایسی رپورٹس ہیں کہ مسٹر شاہ کشمیر میں نئی حدبندی کی تجویز رکھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کشمیر بجائے خود کثیر نسلی، ہمہ مذہبی خطہ ہے۔ وادیٔ کشمیر میں مسلم غالب سماجی گروہ ہیں جبکہ جموں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ آبادی کے دیگر حصے بدھسٹوں اور قبائلیوں پر مشتمل ہے۔ اب حدبندی ہوتی ہے تو علاقے کی بہتر نمائندگی ہونی چاہئے، اس میں عوامی رائے کو ملحوظ رکھنے کا عمل بھی شامل ہونا چاہئے۔ بس یہی امید ہے کہ اس مساعی کی انجام دہی کے دوران کشمیر کے عوام کی امنگوں کو مدنظر رکھا جائے؛ یہ محض کسی مخصوص پارٹی کیلئے زیادہ نشستیں جیتنے کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے نہیں ہونا چاہئے۔

دیگر چیزیں جو بی جے پی منشور میں بار بار شامل کی گئیں، آرٹیکلس 370 اور 35A کی تنسیخ ہے۔ آرٹیکل 370 جو ہندوستانی دستور کا حصہ ہے، میثاقِ الحاق کے فقرہ جات کے پس منظر میں شروع سے رہا ہے، جس کے مطابق کشمیر کو دفاع، مواصلات، کرنسی اور امور خارجہ کے سواء تمام امور میں خودمختاری حاصل رہے گی۔ آرٹیکل 35A کا تعلق اس خطے میں غیرکشمیریوں کی جانب سے جائیداد کی خریدی سے ہے۔ یہ دونوں کو برقرار رکھنا پڑے گا کیونکہ کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق مخصوص حالات میں ہوا تھا۔ یہ پاکستان کے تائیدی قبائلی گروپوں ۔ سادہ لباس والے فوجیوں کی جارحیت کے تناظر میں ہوا تھا، تب کشمیر کے مقتدار اعلیٰ راجہ ہری سنگھ نے بیرونی جارحیت کو کچلنے کیلئے ہندوستانی مملکت سے مدد چاہی تھی۔ قبل ازیں، ہری سنگھ نے کشمیر کو آزاد ریاست برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم، اس جارحیت کے پیش نظر انڈین اسٹیٹ کے ساتھ مذاکرات اس میثاق کا موجب بنے جس کے بعد انڈین آرمی نے آگے بڑھ کر پاکستانی سمت سے حملے کو شکست دی۔

کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ قطعی انضمام کشمیری عوام کی رائے یعنی ریفرنڈم کے ساتھ ہونے والا تھا، جو کبھی نہیں ہوا۔ ’شیر کشمیر‘ شیخ عبداللہ کا کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق میں بڑا رول رہا۔ وہ کشمیر کے وزیراعظم بنے۔ گاندھی جی کے قتل کی شکل میں ہندوستان میں فرقہ پرستی بڑھنے اور کشمیر کو ہندوستان میں فوری ضم کرنے ہندو مہاسبھا کے شیاما پرساد مکرجی جیسے لیڈروں کے مطالبہ نے شیخ عبداللہ کو متزلزل کیا۔ پاکستان، امریکہ اور چین سے اُن کی بڑھتی قربت نے انھیں جیل میں پہنچا دیا جہاں وہ 17 سالہ طویل عرصے تک محروس رہے۔ یہی وہ دَور ہے جب کشمیر کے عوام کی انڈین اسٹیٹ سے بیزارگی شروع ہوئی۔ یہی یکا و تنہا کئے جانے کا احساس کشمیر کے مسائل کی جڑ ہے۔
کشمیر میں عسکریت پسندی ابتدائی طور پر کشمیریت کی بنیاد پر رہی۔ کشمیریت ، ویدانت، بودھ مت اور صوفی روایات کا منفرد امتزاج ہے، جس کی بہترین مثال نورالدین نورانی (نوند رِشی) اور لال دیڑھ ہیں۔ کھیر بھوانی کا تہوار جو کشمیر میں سب مل کر مناتے ہیں، گہرے رشتے کا عکاس ہے، جس نے مذہبی سرحدوں کو عبور کیا اور کشمیر میں دونوں بڑے مذاہب کے لوگوں کو متحد کیا۔ القاعدہ نوعیت کے عناصر کے اُبھرنے کے سبب عسکریت پسندی کا فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرنا بڑی مصیبت ثابت ہوا ہے، خاص طور پر تمام کشمیریوں اور بالخصوص ہندوؤں، پنڈتوں کیلئے پریشانی شروع ہوگئی۔ پنڈتوں کو خصوصیت سے نشانہ بنانے پر سماج کو غلط اشارے ملے جو کشمیر کی مشترکہ روایات کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ عسکریت پسندی میں حددرجہ اضافہ زائد از 3.5 لاکھ پنڈتوں اور بڑی تعداد میں مسلمانوں کے بھی کشمیر سے اخراج کا موجب بنا۔ مرکز میں مختلف حکومتوں کی حکمرانی کے باوجود پنڈتوں کیلئے کچھ خاص نہیں کیا گیا ہے۔ پنڈتوں کی زبوں حالی پر آج ازسرنو نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جبکہ ہم آرٹیکلس 370 اور 35A کی باتیں کررہے ہیں۔ مودی I حکومت (2014) کے دوران پنڈتوں کی علحدہ گوشے میں بازآبادکاری کی بات چلی تھی لیکن ظاہر طور پر ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا ہے۔
بی جے پی جہاں ان آرٹیکلس کو ختم کردینے کی بات کرتی ہے، وہیں اسے محبوبہ مفتی کے ساتھ اتحاد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوا، جو علحدگی پسندوں کی پذیرائی کرتی رہی ہیں۔ پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت کے دوران اور سابقہ مودی اقتدار کے دوران بھی مذاکرات کے عمل کو خیرباد کہہ دیا گیا۔ گزشتہ چند برسوں میں عسکریت پسندی، علحدگی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ پیلٹ گن کے شکاروں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ اجنبیت یا بیگانگی کے بڑھتے احساس کو دور کرنے کچھ نہیں کیا گیا۔ کیوں اتنی تعداد میں نوجوان لڑکے اور اب لڑکیاں بھی پتھراؤ کرنے گھروں سے نکل آتے ہیں حالانکہ انھیں اس کے سنگین عواقب کا اندازہ ہوتا ہے۔ کیا ہم ناراضگی و بیزارگی کو پیلٹ گولیوں سے زائل کرسکتے ہیں۔ اگر ہم کشمیر کی صورتحال پر طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ واضح ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر قوم پرستانہ پالیسیوں کے نتیجے میں سماجی تانے بانے کو زیادہ نقصان پہنچا ہے، نیز کشمیری عوام کے دلوں کو جیتنے کے امکان کو بھی بھاری زک پہنچی ہے۔
آج، مودی II حکومت کی اپنے زبرست مینڈیٹ کے ساتھ منفرد پوزیشن ہے ۔ جو مسائل پر توجہ درکار ہے ، اُن میں کشمیری عوام کا بیگانگی کا احساس دور کرنا نمایاں ہے کیونکہ یہی مسائل کی جڑ ہے۔ کشمیر کے عوام مختلف اقسام کے تشدد کا شکار رہے ہیں۔ زخم پر مرہم رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔ جمہوری طریقے اور انسانی حقوق کا نظریہ ہماری پالیسی کے رہنما اُصول ہوں۔ ان باتوں کا مسٹر اٹل بہاری واجپائی نے عمدگی سے اظہار کیا تھا جب انھوں نے کشمیریت، جمہوریت اور انسانیت کے فریم ورک کی بات کی تاکہ مسئلہ کشمیر کو حل کیا جاسکے۔ مسٹر واجپائی کے فارمولے کو آگے لے جانا آج بھی ہمارے لئے بہترین طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بڑی اکثریت برسراقتدار پارٹی کو اپنا پروگرام روبہ عمل لانے کا کھلا اختیار دے سکتی ہے، لیکن امید یہی ہے کہ ایسے پروگرام میں عمل مذاکرات کو مضبوط کرنے اور جمہوریت کے عمل کو گیرائی عطا کرنے کو ملحوظ رکھا جائے گا۔
وہ گروپ جن کو تسلی دینے کی ضرورت ہے، وہ ہیں جو مختلف گوشوں سے تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ ان میں نیم بیوائیں (کشمیری خواتین جن کے شوہر لاپتہ ہوگئے)، پنڈت اور کشمیر کا عام فرد شامل ہیں جو طویل عرصے سے عسکریت پسندی کی لعنت اور سیویلین علاقے میں آرمی کی موجودگی کی ناگوار صورتحال کو برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔ اگر ہم اس خطے میں امن اور بھائی چارہ لانا چاہتے ہیں تو مذاکرات کاروں (دلیپ پڈگاؤنکر، رادھا کمار اور ایم ایم انصاری) کی رپورٹ پر دوبارہ نظر ڈالنے کی ضرورت بھی ہے۔
ram.puniyani@gmail.com