ہر قدم پر درد کا احساس تھا
زندگی نے زخم گنوائے بہت
کشمیر میں تیز رفتار تبدیلیاں
ریاست جموں و کشمیر میں انتہائی تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ گذشتہ ہفتے مرکز کی جانب سے ریاست میں دس ہزار سکیوریٹی دستوںکو متعین کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں وہ قابل غور ہیں۔ یقینی طور پر جو سکیوریٹی ڈھانچہ ہے اس کی دیکھ بھال اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اقدامات مرکزی حکومت کا اختیار ہیںاور اس کا ذمہ اور فریضہ بھی ہیں تاہم ان اقدامات کے تعلق سے پارلیمنٹ کو ضرور اعتماد میںلیا جاسکتا تھا ۔ کل جماعتی اجلاس طلب کرتے ہوئے سیاسی جماعتوںاوراپوزیشن کو ساتھ لیا جانا چاہئے تھا ۔ وزارت داخلہ کے ذمہ داروں کی جانب سے ایک بیان آیا ہے کہ جو افواج کی نقل و حرکت ہے اور سکیوریٹی حالات کے مطابق ان کی جو تعیناتی ہے ان کو سر عام ظاہر نہیں کیا جاسکتا اور نہ کوئی ریمارک اس تعلق سے کئے جاسکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے ۔ یقینی طور پر سکیوریٹی صورتحال کو سر عام ظاہر نہیں کیا جاسکتا اور جو تشویش یا خطرات اگر کچھ لاحق ہوں تو ان پر سرعام اظہار خیال نہیں ہونا چاہئے لیکن جب پارلیمنٹ کا سشن چل رہا ہے ۔ تمام اپوزیشن اور دوسری حکومت کی حلیف جماعتوں کے قائدین دہلی میں موجود ہیں تو حکومت اس تعلق سے پارلیمنٹ میںصورتحال کو واضح کرتے ہوئے اپوزیشن کے قائدین اور اپنی حلیف جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لے کر یہ اقدامات کرسکتی تھی ۔ حکومت کو یہ حقیقت تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پارلیمنٹ میںجوابدہ ہے اور جب پارلیمنٹ کا سشن چل رہا ہو تو اس کے علم میں لائے بغیر بڑے اور اہم فیصلے نہیںکئے جانے چاہئیں۔ سی پی ایم کی جانب سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے یہی بات کہی گئی کہ جموں و کشمیر میںجو کچھ بھی صورتحال ہے اس پر پارلیمنٹ کو مطلع کیوں نہیں کیا گیا ۔ یہ سوال کرنا اپوزیشن کا حق ہے اور حکومت کو اس کا جواب دینا چاہئے ۔ ملک کی تقریبا تمام اپوزیشن جماعتوں میں یہ خیال گشت کر رہا ہے کہ جموں وکشمیر کی صورتحال کیا ہوگئی ہے کہ حکومت کو آنا فانا اقدامات کرنے کی ضرورت درپیش ہوگئی ہے ۔ حکومت اس پر پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لئے بغیر اپنے طور پرا قدامات کر رہی ہے ۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومت ایک کل جماعتی اجلاس بھی طلب کرسکتی تھی تاہم ایسا نہیں کیا گیا ۔ امرناتھ یاترا کو اچانک ایک طرح سے عملا روکنے کے احکام جاری کئے گئے ۔ امرناتھ یاترا کے راستہ میں پاکستانی سرنگ اور اسلحہ کا ذخیرہ دستیاب ہوا ہے ۔ یہ انتہائی تشویش کی بات ہے لیکن حکومت کے پاس مکمل سکیوریٹی ڈھانچہ دستیاب ہے ۔ ہماری افواج اور سکیوریٹی دستے انتہائی سنگین صورتحال سے بھی اچھی طرح نمٹنے کی اہلیت اور صلاحیت کے مالک ہیں ۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے امرناتھ یاتریوں کو اور سیاحوں کو وادی سے فوری نکل جانے کی ہدایت دینا ایک طرح کی سنسنی پھیلانے کے مترادف ہے ۔ اگر سکیوریٹی خطرات لاحق ہیں تو حکومت خاموشی سے ایسے کچھ انتظامات کرتی کہ یاتریوں میں اور دوسرے سیاحوںاور عام عوام میں کسی طرح کی بے چینی اور خوف پیدا ہونے نہیں پاتا ۔ حکومت نے ایسا کرنے کی بجائے ایک اڈوائزری جاری کردی اور تمام یاتریوںکو وادی میں اپنا قیام مختصر کرنے کی ہدایت جاری کردی ۔ اس سے سیاسی حلقوں میں بھی بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور عوام میں بھی ایک طرح سے سنسنی ہی پیدا ہوئی ہے ۔ اس طرح کی صورتحال پیدا ہونے سے بچاجاسکتا تھا اگر حکومت کی جانب سے جلد بازی نہیں کی جاتی ۔ جموں و کشمیر میں صورتحال میں بہتری کے حکومت کی جانب سے کئی دعوی کئے جاتے رہے ہیں۔ ہماری افواج کی جانب سے بھی یہ واضح کردیا گیا تھا کہ وادی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے ۔ اس کے باوجود اچانک ہی سے گہماگہمی والی صورتحال پیدا کی جاتی ہے تو اس پر تشویش اور فکر یقینی طور پر لاحق ہوتی ہے ۔ اب بھی حکومت کیلئے موقع ہے کہ وہ اس مسئلہ پر ملک کی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے ۔ سیاسی جماعتوں کو چاہے وہ اپوزیشن جماعتیں ہوں یا حکومت کی حلیف جماعتیں ہوں ان سب کا ایک اجلاس طلب کیا جائے اور انہیںنہ صرف وادی کی بلکہ ساری ریاست کی صورتحال سے واقف کروایا جائے ۔ حکومت کے منصوبوں کو پیش کیا جائے اور سبھی کے مشوروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے حالات کو بگڑنے سے بچانے کیلئے ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے عوامی بے چینی دور ہوسکے ۔
معیشت کی سست رفتاری
مرکزی حکومت کی جانب سے مسلسل یہ دعوے کئے جا رہے ہیںکہ اس نے جاریہ سال کیلئے جو بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے اس میں ملک کی معیشت کو تین ٹریلین والی معیشت تک پہونچانے پر توجہ کرتے ہوئے اقدامات کئے گئے ہیںتاہم جو حالات ملک بھر میںدکھائی دے رہے ہیں وہ اس سے یکسر مختلف ہے ۔ مختلف گوشوں سے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی معیشت سست رفتاری کا شکار ہوتی جا رہی ہے ۔ کئی صنعتی گوشوں میں اس تعلق سے تشویش پائی جاتی ہے اور یہ اندیشے لاحق ہوگئے ہیں کہ آئندہ دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں ملازمتوں سے محرومی ہوسکتی ہے ۔ ایک بڑی کمپنی کی جانب سے گذشتہ دنوں ہی یہ اعلان کیا گیا تھا کہ آئندہ مہینوں میں حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے ایک لاکھ ملازمتوں میں تخفیف کی جاسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ جو پیداوار کا شعبہ ہے اس میں بھی اندیشے اور فکر لاحق ہوگئی ہے کیونکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ اندرون ملک اشیا کی کھپت اور طلب میں کمی آئی ہے جس کا راست طور پر اثر پیداوار پر پڑ رہا ہے ۔ اگر اس صورتحال کو فوری طور پر قابو میں نہیں کیا جاتا ہے تو آئندہ وقتوں میںمعیشت کے حالات اور بھی دگرگوں ہوسکتے ہیں۔ حکومت کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ مسلسل صرف اعداد و شمار کے الٹ پھیر کے ساتھ عوام کو گمراہ کرتی ہے اور حقیقی صورتحال کو منظر عام پر آنے سے روکا جاتا ہے ۔ تاہم اب دھیرے دھیرے صنعتی حلقوں کی تشویش عام ہوتی جا رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک بھر میںلاکھوںروزگار آئندہ چند مہینوں میں متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس سے بیروزگاری کی شرح میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا ۔ یہ شرح پہلے ہی سے بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اس پر قابو پانے کی بجائے اگر اس میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو اس سے عام لوگوں کی زندگیاں مشکل کا شکار ہونگی ۔ حکومت کو فوری حرکت میں آتے ہوئے ملک کی معیشت کو سدھارنے کیلئے موثر اور جامع اقدامات کرنے کی ضرورت ہے قبل اسکے کہ صورتحال قابو سے باہر ہوجائے ۔