مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے کشمیر میں اپنی طاقت کے ذریعہ مرضی کے مطابق فیصلے کئے ہیں۔ لیکن کشمیری عوام بھی فیصلہ سازی کی طاقت رکھتے ہیں اس لئے حالیہ ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسلس (DDCS) کے انتخابات میں کشمیری عوام نے جمہوریت کی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ گزشتہ سال اگسٹ میں کشمیر کو حاصل خصوصی موقف ختم کرنے کے بعد مرکزی زیرانتظام علاقہ میں پہلی مرتبہ انتخابات کروائے گئے تھے۔ انتخابات میں کشمیر کی 7 سیاسی پارٹیوں پر مشتمل اتحاد نے کامیابی حاصل کی ہے۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے بشمول کشمیر کی اصل دھارے کی پارٹیوں کی کامیابی کا مطلب اس اتحادی گروپ کو کشمیر کے 9 کونسل کا کنٹرول حاصل ہوگا۔ بی جے پی کو جموں خطہ میں زیادہ نشستیں ملی ہیں۔ بی جے پی کا اندازہ تھا کہ وہ کشمیری عوام پر غالب آئے گی۔ درحقیقت بی جے پی کو ہندو غلبہ والے علاقہ جموں میں سخت مقابلہ کرنا پڑا ہے۔ کشمیر کا خصوصی موقف چھین لینے کے بعد ڈی ڈی سیز کے یہ انتخابات بی جے پی کے لئے کڑی آزمائش ثابت ہوئے۔ کشمیریوں کے تعلق سے بی جے پی کا سخت گیر رویہ اور من مانی قوانین کے نفاذ نے کشمیریوں کی زندگیوں کو اجیرن بنادیا ہے۔ مودی حکومت نے کشمیر کی اراضی خریدنے کے لئے کشمیر کے باہر کے شہریوں کو بھی اجازت دیدی ہے۔ قانون سازی کے ذریعہ وادیٔ کشمیر کی سرزمین سب کے لئے برائے فروخت کردینے کے بعد کشمیری عوام کو محسوس ہوا کہ مودی حکومت اب ان کے پیروں تلے زمین چھین لینے کی پالیسی پر کاربند ہورہی ہے۔ یہ ایک ایسی پالیسی ہے جس کے ذریعہ صرف اُن تاجروں کو فائدہ پہونچایا جارہا ہے جو بی جے پی کے دوست ہیں۔ کشمیری عوام کی مرکزیت ختم کرنے کیلئے نظم و نسق میں بھی بڑے پیمانہ پر تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔ جائیداد ٹیکسوں میں اضافہ کے ذریعہ کشمیر کے غریب عوام کو اپنی اراضیات فروخت کرنے کے لئے مجبور کیا جائے گا۔ ڈی ڈی سیز انتخابات کے ذریعہ بی جے پی نے مقامی سطح کے اختیارات میں بھی کمی کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ منتخب ارکان کی طاقت کو کمزور کرنے کی بھی کوشش ہے۔ مودی حکومت کی تمام کوششیں یہی ہیں کہ کشمیری شہری زندگی پر حملے کئے جاتے رہیں تاکہ عوام ہر پل پریشان رہیں۔ ان پالیسیوں اور خطرناک منصوبوں سے ہی نریندر مودی حکومت کو وادیٔ کشمیر میں زیادتیوں کا موقع مل رہا ہے۔ شروع سے ہی مرکز نے کشمیر میں سرکاری مشنری کا بیجا استعمال کیا تاکہ گپکار ڈیکلریشن کے لئے پیپلز الائنس کو محدود کردیا جائے لیکن کشمیری عوام نے اپنا فیصلہ گپکار اتحاد کے حق میں سناکر جمہوری طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے باوجود بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس نے کشمیر پر اپنا غلبہ بڑھالیا ہے۔ 235 نشستوں کے منجملہ بی جے پی کو 75 نشستیں ملی ہیں لیکن وہ گمراہ کن طریقہ سے یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام نے اس کو ووٹ دیا ہے۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی کا جموں میں ووٹ فیصد گھٹ گیا ہے۔ گزشتہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں اسے 59 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اب یہ ووٹ فیصد گھٹ کر 34 فیصد ہوگیا۔ بی جے پی کو جو دھکہ لگا ہے وہ کشمیریوں کے خلاف اس کی سخت گیر پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل کے انتخابات بہرحال کشمیر میں حالات کو بحال کرنے کی سمت ایک اچھا قدم ہے۔ ان انتخابات کے بعد وادیٔ کشمیر کی ترقی کے لئے مرکز سے راست فنڈس کے ذریعہ ترقی دینے میں مدد ملے گی تاہم کونسلس کے لئے مناسب وسائل اکٹھا کرنا بھی ضروری ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کونسل کے لئے منتخب ارکان کو کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے یا نہیں۔ بی جے پی کے خلاف جانے والے رائے دہندوں کے ساتھ انتقامی کارروائی کی جائے تو یہ ایک بڑی بددیانتی اور طاقت کا ناجائز استعمال ہوگا۔ عوام نے جمہوری طرز پر اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے تو مرکز کی مودی حکومت کو ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے وادیٔ کشمیر کے لئے حسب قواعد ترقیاتی کاموں کی انجام دہی کے لئے فراخدلانہ قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
محمود پراچہ کیخلاف پولیس کارروائی
سپریم کورٹ کے معروف وکیل محمود پراچہ کا قصور کیا ہے۔ یہ سوال اِس وقت انصاف پسند عوام کے اندر اٹھ رہا ہے۔ دہلی کی پولیس نے نظام الدین ویسٹ آفس پر 15 گھنٹے تک دھاوا کرکے تلاشی لینے کے بعد وکیل محمود پراچہ نے جو الزام عائد کیا ہے وہ دہلی پولیس کی اس کارروائی کے پیچھے اصل شخص کی کارستانی کو آشکار کرتا ہے۔ دہلی فسادات یا اُس سے قبل کے واقعات میں ماخوذ مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لئے آگے آنے والے وکیل محمود پراچہ کے دفتر پر چھاپہ مارا جانا قابل مذمت حرکت ہے۔ وہ دہلی فساد کے پیچھے اصل سازشی ذہنوں کو عدالت کے سامنے بے نقاب کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ گزشتہ سال دہلی میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا ان کو بَری کرانے کے لئے محمود پراچہ نے قانونی لڑائی شروع کی ہے۔ محمود پراچہ سپریم کورٹ کے اُن اہم وکلاء میں سے ایک ہیں جو اپنی صلاحیتوں، قابلیت اور قانونی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے قصور افراد کو بچانے میں کامیاب ہوتے آرہے ہیں اس لئے دہلی پولیس کے ذریعہ مرکز کی بعض سیاسی طاقتیں انھیں پھنسانے کی کوشش کررہی ہیں۔ پولیس کی کارروائی کا شکار ہونے والے محمود پراچہ واحد شخص نہیں ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی دہلی پولیس نے شاہین باغ کے مسئلہ میں کئی اہم مسلم افراد کے خلاف کارروائی کی ہے۔ خالد سیفی، شرجیل امام، آصف، عمر خالد، گل افشاں فاطمہ وغیرہ شامل ہیں۔ ہندوستان پر اِس وقت ایسی طاقتیں برسر اقتدار ہیں جو عوام کے خط اعتماد کا بیجا استعمال کرتے ہوئے خوف کا ماحول پیدا کررہی ہیں۔ پراچہ کا یہ الزام غور طلب ہے کہ ان کے خلاف کارروائی وزیرداخلہ امیت شاہ کی ایماء پر ہوئی ہے کیوں کہ محمود پراچہ دہلی فسادات میں امیت شاہ کے رول کو بے نقاب کرنے والے تھے۔ بہرحال ایک وکیل کے خلاف اس طرح کی کارروائی قابل مذمت ہے اور انصاف کے حصول کی کوشش کرنے والوں کو خوف زدہ کرنا ہے۔
