سرینگر، 24ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) وادی کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کی دو حصوں میں تقسیم کے خلاف منگل کے روز مسلسل 51 ویں دن بھی ہڑتال جاری رہی۔ گرمائی دارالحکومت سری نگر اور دیگر 9 اضلاع کے قصبہ جات و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں دکانیں و تجارتی مراکز بند ہیں جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت معطل ہے ۔ تاہم جہاں ہڑتال کے دوران سڑکوں پر چلنے والی نجی گاڑیوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے وہیں اب کچھ سڑکوں بالخصوص بارہمولہ جموں ہائی وے پر چھوٹی مسافر گاڑیاں بھی چلتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔گزشتہ زائد از ڈیڑھ ماہ سے پبلک ٹرانسپورٹ لگاتار بند رہنے سے اس سے متعلق افراد کو بے تحاشا مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑرہا ہے ۔ وادی میں پانچ اگست جس دن مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 منسوخ کی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا اس وقت سے سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ مسلسل معطل ہے ۔ وادی کی سڑکوں پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی تعداد پچاس ہزار بتائی جارہی ہے جن کی نقل وحرکت پانچ اگست سے معطل ہے ۔وادی میں گرچہ دکانیں و تجارتی مراکز دن کے وقت مکمل طور پر بند رہتے ہیں تاہم کچھ بازاروں میں صبح کے وقت رونق دیکھی جارہی ہے ۔ گرمائی دارالحکومت سری نگر کے کچھ حصوں میں اب نماز فجر کی ادائیگی کے بعد دکانیں کھل جاتی ہیں
اور لوگ بھی ان دکانوں کا رخ کرکے خریداری کرتے ہیں تاہم نو بجتے ہی دکانیں فوراً بند ہوجاتی ہیں اور بازاروں میں ایک بار پھر اگلے فجر تک ہوکا عالم چھا جاتا ہے ۔ اسی طرح سری نگر میں قائم سبزی منڈیوں میں فجر ہوتے ہی لوگوں کی اس قدر بھیڑ لگ جاتی ہے کہ صرف ایک یا دو گھنٹے کے اندر ہی ساری سبزی بک جاتی ہے ۔سیاحتی سرگرمیاں 5 اگست سے مکمل طور پر ٹھپ ہیں۔ وادی کی تمام سیاحتی مقامات پر واقع ہوٹل بند یا خالی ہیں اور سری نگر میں سبھی ہائوس بوٹ خالی ہیں۔ وہ افراد جن کی روزی روٹی سیاحتی شعبے پر منحصر ہے کو شدید مالی دشواریوں کا سامنا ہے ۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کی تمام مشہور سیاحتی مقامات بشمول گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ، یوسمرگ اور دودھ پتھری میں سیاحتی سرگرمیاں 5 اگست سے مکمل طور پر معطل ہیں۔ ان سیاحتی مقامات پر واقع سبھی ہوٹل اور دکانیں بند ہیں جبکہ ہوٹلوں میں کام کرنے والے ملازمین کی چھٹی کردی گئی ہے ۔وادی میں موبائل فون و انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی منگل کو 51 ویں دن میں داخل ہوگئی۔ مواصلاتی خدمات پر پابندی کی وجہ سے اہلیان کشمیر کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ پیشہ ور افراد کا کام اور طلباء کی پڑھائی بری طرح سے متاثر ہے ۔ طلباء اور روزگار کی تلاش میں برسر جدوجہد نوجوان آن لائن فارم جمع نہیں کرپا رہے ہیں۔وادی میں جموں خطہ کے بانہال اور شمالی کشمیر کے بارہمولہ کے درمیان چلنے والی ریل خدمات بھی 5 اگست سے لگاتار معطل ہیں۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ سروسز مقامی پولیس و سول انتظامیہ کی ہدایت پر معطل رکھی گئی ہے اور مقامی انتظامیہ سے گرین سگنل ملتے ہی بحال کی جائیں گی۔ ان کے مطابق ریلوے کو اب تک زائد از ڈیڑھ کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔وادی بھر میں تعلیمی ادارے گزشتہ زائد از ڈیڑھ ماہ سے بند پڑے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے جو تعلیمی ادارے کھولے گئے ہیں ان میں طلباء کی حاضری صفر کے برابر ہے ۔ اگرچہ سرکاری دفاتر کھلے ہیں تاہم ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان میں ملازمین کی حاضری بہت کم دیکھی جارہی ہے ۔ لوگ بھی دفاتر کا رخ نہیں کرپاتے ہیں۔ انتظامیہ نے بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو نظر بند رکھا ہے ۔ نیشنل کانفرنس صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ انہیں اپنے ہی گھر میں بند رکھا گیا ہے ۔ علاحدگی پسند لیڈر بھی نظر بند ہیں۔ وادی میں جاری موجودہ ہڑتال کی کال کسی جماعت نے نہیں دی ہے۔ لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر کوئی پابندیاں عائد نہیں ہیں تاہم انہیں ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے اور پتھرائو کرنے والے نوجوانوں سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری تعداد تعینات ہے ۔ جامع مسجد کو بدستور مقفل رکھا گیا ہے اور کسی کو بھی اس کے دروازوں کے سامنے ٹھہرنے یا گاڑی کھڑا کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔
پائین شہر میں تمام دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیشتر سڑکیں سنسان نظر آرہی ہیں۔انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی کی صورتحال تیزی کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہے تاہم اس کے برعکس سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ ان میں سے کچھ درجن بسوں کو سول سکریٹریٹ ملازمین اور سری نگر کے دو تین ہسپتالوں کے عملے کو لانے اور لے جانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ ایس آر ٹی سی کی کوئی بھی گاڑی عام شہریوں کے لئے دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔