حالات، زندگی کے بدلتے رہے مگر
پھر بھی وفا، جفا کا وہی سلسلہ رہا
کشمیر پر مصالحت کا مسئلہ
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے گذشتہ ماہ ہی جی 7 چوٹی کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کو ہندوستان اور پاکستان کا باہمی مسئلہ ہونے سے اتفاق کیا تھا لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کے موقع پر الگ الگ بیان میں مسئلہ کشمیر پر ان کا بیان قلابازیاں کھاتا دکھائی دیا۔ صدر ٹرمپ نے پیر کے دن ایک بار پھر یہ کہا تھا کہ اگر دونوں ممالک کی خواہش ہے تو مسئلہ کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرسکتے ہیں، اگر میں مددکرسکتا ہوں تو بلاشبہ میں ایسا کرنے کے لئے تیار ہوں، اگر ہندوستان اور پاکستان چاہتے ہیں تو میں اس کے لئے تیار ہوں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ کے اس بیان کو سفارتی گوشوں میں وائیٹ ہاوز کے موقف کے برعکس قرار دیا ہے۔ صدر ٹرمپ یا امریکہ کا کوئی بھی صدر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدہ حالات پر مختلف موقف رکھتے ہیں۔ کبھی امریکی سربراہ یا کوئی اعلیٰ عہدیدار ہند ۔ پاک مسئلہ پربولنا ہوتا ہے تو پاکستان کے دورہ کے موقع پر ایک بیان دیا جاتا ہے اور جب ہندوستان میں ہوتے ہیں تو ان کا لہجہ اور موقف بدل جاتا ہے۔ اسی طرح اب امریکہ میں عمران خان سے ملاقات سے ایک دن قبل ہوسٹن میں وزیر اعظم مودی کے ساتھ شہ نشین پر ایک ساتھ موجود رہنے والے ٹرمپ نے مسلہ کشمیر پر وزیر اعظم مودی کے موقف کی سماعت کی لیکن اس پر کچھ تبصرہ نہیں کیا۔ کشمیر سے آرٹیکل 370 کی برخاستگی ،کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور گذشتہ تقریباً دو ماہ سے کشمیریوں کو ان کی ہی سرزمین پر محروس کردینے کے حالات کا تعلق ہے صدر ٹرمپ نے نوٹ نہیں لیا ۔ اس طرح امریکی صدر کی خارجہ ڈپلومیسی میں کوئی توازن نہیں ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پیر کے دن عالمی سطح پر غیر ملکی تعلقات کونسل میں متعدد اُمور پر اظہار خیال کرنے کے ساتھ آرٹیکل 370 پر بھی ردِعمل ظاہر کیا۔ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد عمران خان کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں اپنے موقف کا جائزہ لینے کی ضرورت تھی۔ پاکستان نے کشمیر پر فرقہ وارانہ خطوط پر جائزہ لے کر اس مسئلہ کو دوسرا رُخ دینے کی کوشش کی مگر وہ بھی عالمی سطح پر توجہ حاصل کرنے کے موقع سے محروم ہوگیا۔آرٹیکل370 کی برخاستگی کے بعد بین الاقوامی سطح پر عالمی برادری نے خاصکر روس ، امریکہ ، فرانس اور کئی دیگر ممالک نے دونوں ملکوں ہندوستان اور پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ کشمیر سے متعلق کسی بھی مسئلہ کوباہمی مذاکرات کے ذریعہ حل کرلیں۔ لیکن اس مسئلہ پر دونوں ملکوں ہندوستان اور پاکستان کا رویہ مختلف ہے۔ ہندوستان نے ہمیشہ اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ایل او سی کے اس طرف پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کی اور وہ دہشت گردی کی سرپرستی کررہا ہے۔ اکٹوبر 1948 کو مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے ہندوستان شامل ہونے کے بعد اس اہم اور جنت نشاں ریاست کی قدر و منزلت دن بہ دن گھٹائی جانے لگی، آج یہاں سانس لینا محال کردیا گیا ہے۔ایک طرف دہشت گردوں نے کشمیری عوام کی زندگیوں کو خطرناک دہانے پر پہنچادیا تو دوسری طرف فوج نے سیکورٹی کے نام پر کشمیریوں کو ان کے ہی گھروں میں نظر بند کررکھا ہے۔ یہاں ایک ایسی صورتحال ہے جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عالمی توجہ کا طالب ہے۔ اگرچیکہ عمران خان نے اقوام متحدہ کے قائدین کے سامنے اس مسئلہ کو اُٹھایا ہے۔ لیکن وہ عالمی قائدین کی بھرپور تائید حاصل کرنے سے قاصر دکھائی دیئے۔ ہندوستان پرالزامات عائد کرنے اور وزیر اعظم مودی کے تعلق سے یہ ریمارک کہ وہ پاکستان کے خلاف آر ایس ایس کے ایجنڈہ کو روبہ عمل لارہے ہیں اور عالمی سطح پر خاص اثر نہیں ہوا۔ عمران خان نے البتہ ہندوستان کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے اپنی حکومت کی مرضی سے واقف کروایا، لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے لئے انہیں ہندوستان کے شرائط یعنی سرحد پار کی دہشت گردی کی تائید کرنے کا الزام غلط ثابت کریں اس کے لئے انہیں پاکستان کی سرزمین پر سرگرم بعض تنظیموں کے خلاف سخت قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے ان کی کوششوں کا ذکر کیا۔ کرتارپور راہداری کے قیام کے ذریعہ وہ پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنے کی ان کی کوششوں کا حصہ قرار دیا۔ بلا شبہ ہندوستان بھی پاکستان سے امن کا رشتہ قائم کرنے میں پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس لئے دونوں ملکوں نے دیکھ لیا ہے کہ ان کے باہمی مسائل کی یکسوئی عالمی برادری کے سامنے کوئی خاص نتائج برآمد نہیں کرسکے گی لہذا باہمی مذاکرات ہی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔