کشمیر کے حالات ، مذہبی و سیاسی قائدین اور علحدگی پسندوں کے تعلق سے گورنر ستیہ پال ملک کا تبصرہ سن کر کشمیری عوام کے غم زدہ دلوں پر کیا گذری ہوگی جو اپنے ہی وطن میں حکومتوں کی زیادتیوں کا شکار بنا دئیے گئے ہیں ۔ گورنر نے کہا ہے کہ اس ریاست میں اصل دھارے کی سیاسی جماعتوں اور حریت قائدین ، مذہبی مبلغین اور علماء نے عام کشمیریوں کے بچوں کو مرنے کے لیے اکساتے ہوئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا ہے لیکن دہشت گردی میں ان قائدین کا کوئی رشتہ دار ہلاک نہیں ہوا ۔ گورنر کے بیان سے کشمیر پر سیاست کرنے والوں کو فائدہ تو ہوگا لیکن کشمیر کے مصیبت زدہ حالات کا شکار عوام کو کوئی راحت نہیں ملے گی ۔ عصر حاضر کے چند اہم ترین سیاسی اور انسانی مسائل میں سے ایک مسئلہ کشمیر کا ہے ۔ جس کے بارے میں آج عالمی سطح پر اظہار خیال ہورہا ہے کہ کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے والے اقدامات کئے گئے ہیں ۔ کشمیر کے مسئلہ کی یکسوئی کے لیے ہمدردانہ انسانی جذبہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے بنیادی طور پر چند چیزوں پر دھیان دینے کی بات کی جاتی ہے ۔ مظلوم کشمیریوں کو فی الفور راحت دی جانے کی راہ نکالی جائے ۔ دوسرے یہ کہ دستور کے آرٹیکل 370 کو بحال کس طرح کروایا جاسکتا ہے ۔ کشمیر کے لیے خصوصی موقف دینے پر توجہ دینے کے لیے مرکز کو راضی کرانے کی کس طرح کوشش کی جاسکتی ہے۔ دنیا کی توجہ اس مسئلہ کی طرف کس قاعدے اور کس طریقہ سے مبذول کروائی جائے اور یہ احساس پیدا کرنا چاہیے کہ اس وقت کشمیریوں پر کیا گذر رہی ہوگی ۔ گورنر ستیہ پال بھی دستوری ذمہ داری رکھتے ہیں ۔
انہوں نے کشمیری عوام کے تعلق سے جو کچھ کہا ہے اس کے پس منظر سے وہ بخوبی واقف بھی ہوں گے ۔ جہاں تک کشمیر میں سیاستدانوں ، اعلیٰ عہدیداروں ، علماء کرام کا تعلق ہے اس بارے میں گورنر کی رائے پر اختلاف ہوسکتا ہے ۔ ان کے بچے محفوظ کیوں اور عام کشمیریوں کے بچوں کو موت کی کھائی میں کیوں ڈھکیلا جاتا ہے ۔ گورنر کے خیال میں کشمیر کے طاقتور متمول افراد اور قائدین نے کشمیری نوجوانوں کو کچل دیا اور زندگیوں کو برباد کیا ہے ۔ لیکن اس وقت کشمیر میں گورنر راج ہے جہاں لاکھوں کشمیری عوام کو ان کے گھروں میں محروس رکھا گیا ہے تو اس پر گورنر کو غور کرنا بھی ضروری ہے ۔ ستیہ پال ملک اپنے سخت لب و لہجہ اور دوٹوک انداز میں بات کرنے کے لیے شہرت رکھتے ہیں ۔ انہیں کشمیر کے داخلی حقائق اور عوام کے بنیادی مسائل پر بھی دھیان دینا چاہئے ۔ ان کا یہ دعویٰ غور طلب ہے کہ انہوں نے کشمیری نوجوانوں سے ملاقات کر کے ان کی رائے اور خیالات سے آگہی حاصل کی ہے ۔ ان نوجوانوں سے ملاقات کے دوران یہ احساس ہوا کہ ان بچوں کے خواب کچلے جاچکے ہیں ۔ اب وہ برہم اور گمراہ ہیں ۔ گورنر نے ان گمراہ کشمیریوں کو سچائی کی راہ دکھانے کی کوشش کرنے کا بھی ادعا کیا ہے ۔ ترقی و خوشحالی کا ایک نیا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ گورنر واقعی کشمیری عوام کو خوشحالی اور ترقی کی راہ پر لانا چاہتے ہیں تو انہیں اس راہ کے پس پردہ حالات کا بھی جائزہ لیتے ہوئے رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ گورنر نے کہا کہ اس ریاست کے 22 ہزار نوجوان ریاست سے باہر جاکر تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ گورنر خود اس بات پر غور کرسکتے ہیں کہ آخر یہ نوجوان دیگر ریاستوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے مجبور کیوں ہیں ۔ کشمیر میں عام نوجوان امن چاہتا ہے اپنی زندگیوں کو بھر پور طور پر کامیاب بنانا چاہتا ہے لیکن اس صبر آزما دور میں انہیں صحیح راہ دکھائی نہیں گئی ۔ کشمیر میں قدم قدم پر سیکوریٹی کے مورچے اور پہرے ہونے کے باوجود کشمیری عوام کے اندر عدم تحفظ کا احساس ہے ، ان کے اس عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرنے کے لیے گورنر کو ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔۔
